مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزارت خارجہ نے اسرائیلی جارحیت پر سخت ردعمل دیتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔
ترجمان وزارت خارجہ اسماعیل بقائی نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ صبر و تحمل کی اپیل دراصل کھلی منافقت ہے۔ ہم بالکل واضح طور پر اعلان کرتے ہیں کہ وہ تمام ممالک جنہوں نے صیہونی حکومت کی حمایت کی یا اس حملے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی، وہ ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت میں شریکِ جرم تصور کیے جائیں گے۔
بقائی نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکومت کو اس کے جرائم پر استثنا دینے اور امریکہ و مغربی ممالک کی ہمہ جہت پشت پناہی نے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے امن و سلامتی کو سنگین خطرے سے دوچار کردیا ہے۔
انہوں نے حالیہ دنوں میں ایران کے رہائشی علاقوں اور پرامن ایٹمی تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا نطنز اور اصفہان میں ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ بین الاقوامی ضوابط کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے سلامتی کونسل سے اپیل کی کہ وہ اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں نبھائے۔ سلامتی کونسل کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ورنہ محض صبر و تحمل کی اپیلیں کرنا، منافقت کے سوا کچھ نہیں۔
بقائی نے اس جنگ کو صرف ایران کے خلاف نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف ایک جنگ قرار دیا اور کہا کہ یہ تصادم دو حکومتوں کے درمیان سرحدی یا نظریاتی اختلافات کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک قابض اور نسل پرست حکومت کی طرف سے چھیڑی گئی جنگ ہے۔ یہ جنگ اقوامِ متحدہ کے منشور، قانون کی حکمرانی، اور ان تمام انسانی اقدار کے خلاف ہے جن کے لیے انسانیت نے صدیوں جدوجہد کی ہے۔
صہیونی حکومت کے حامی ممالک جارحیت میں شریک جرم ہیں
ترجمان وزارت خارجہ نے کہا تمام وہ ممالک جو کسی نہ کسی شکل میں اس (صہیونی) رژیم کی حمایت کر رہے ہیں یا اس جرم کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس جارحیت میں شریکِ جرم ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اپنی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے ایک بھرپور دفاعی کارروائی کا آغاز کیا ہے جو پوری قوت کے ساتھ جاری رہے گی۔ ہمارا جواب بین الاقوامی قانون، عقل اور انسانی منطق کی روشنی میں ایک جائز دفاع ہے۔
ترجمان نے مزید کہا ایران پر جارحیت کوئی تنہا واقعہ نہیں بلکہ ایک تسلسل کا حصہ ہے۔ ہمیں غرب اردن اور غزہ میں جاری مظالم کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اسلامی ممالک کی سرزمینیں اس غاصب حکومت کے قبضے میں ہیں۔
ایسے حالات میں مذاکرات کا کوئی معنی نہیں
ترجمان وزارت خارجہ نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے متعلق بعض افواہوں کے بارے میں کہا کہ ہم مذاکرات میں مصروف تھے کہ اچانک صہیونی حکومت کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس اقدام کے بارے میں ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ یہ امریکہ کی حمایت اور شراکت کے بغیر انجام پایا ہو۔ صہیونی حکومت کے اس اقدام نے سفارتی عمل کو بے معنی بنا دیا ہے۔ اب یہ امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بارے میں ایک واضح مؤقف اختیار کرے۔
آپ کا تبصرہ