بین الاقوامی امور کے ماہر فواد ایزدی نے مہر خبررساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ عملی طور پر جنگ میں داخل ہو چکا ہے، اگرچہ اس نے رسمی اعلان نہیں کیا۔ آج ایرانی خواتین اور بچے امریکی ہتھیاروں سے شہید ہو رہے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل میں فرق کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔
انہوں نے اس سوال پر کہ کیا امریکہ اسرائیل کی حمایت سے بڑھ کر اب براہِ راست جنگ کا فریق بن چکا ہے؟
فواد ایزدی نے اس سوال کےجواب میں کہا کہ جی ہاں، امریکہ کی عملی شمولیت واضح ہے۔ اگر کبھی امریکہ نے سرکاری طور پر جنگ میں شمولیت کا اعلان کر دیا، تو یہ ایران کے لیے موقع ہو گا کہ وہ امریکی اڈوں پر براہِ راست حملہ کرے۔
فواد ایزدی نے ایک ممکنہ امریکی-اسرائیلی منصوبے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک سنجیدہ خطرہ یہ ہے کہ ایران کو ایک طویل فرسایشی جنگ میں گھسیٹا جائے، جہاں امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کرے، اور ایران اپنے میزائل اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنائےتاکہ ایران کی عسکری صلاحیت کوکمزور کیاجائے۔ جب ایران کی طاقت کم ہو جائے تو امریکہ کھل کر میدان میں آ جائے۔ ہمیں اس منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ حملے میں امریکہ کی شمولیت نمایاں ہے۔ چاہے وہ اسرائیل کو ہتھیار و معلومات دینا ہو، یا وہ فریب جو نتن یاہو نے فاکس نیوز کو بتایا کہ ٹرمپ نے ایران کو یہ تاثر دیا کہ وہ مذاکرات کے دوران نشانہ نہیں بنے گا، یہ سب امریکہ کے جنگ میں براہِ راست شریک ہونے کی نشانیاں ہیں۔
اب ایرانی خواتین اور بچے امریکی ہتھیاروں سے شہید ہو رہے ہیں؛ لہٰذا امریکہ اور اسرائیل کے درمیان فرق کرنا ایک سنگین غلطی ہے۔ یہ کہنا کہ چونکہ امریکہ نے رسمی طور پر جنگ کا اعلان نہیں کیا، اس لیے ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں، ایک نہایت خطرناک تجزیہ ہے۔ اگر یہ غلطی جاری رہی، تو وہ منصوبہ جو انہوں نے تیار کیا ہے، عملی جامہ پہن لے گا۔
بین الاقوامی امور کے ماہر نے زور دیا کہ ہمیں امریکی-اسرائیلی مشترکہ حملے کا جواب اپنے بنائے گئے منصوبے اور حکمتِ عملی کے مطابق دینا چاہیے، نہ کہ اُن کے طے کردہ وقت کے مطابق۔
ایزدی نے صہیونی حکومت کی جنگی سخت صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دشمن کے اکثرحکام کو انسانی جان کی کوئی پروا نہیں۔ چاہے مرنے والا فلسطینی ہو، ایرانی ہو یا خود اسرائیلی۔یہ سب ایک مجرم مافیا کا حصہ ہیں جو اقتدار کی بقا کے لیے روزانہ درجنوں بچوں کو تہہ تیغ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر کچھ صہیونی بھی مارے جائیں تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ وہ انسانیت سے عاری لوگ ہیں۔ یہی بے حسی ان کی بردباری کی وجہ بنی ہے، کیونکہ انہیں اپنے جرائم جاری رکھنے میں کوئی تردد نہیں۔ ہمیں بھی اپنی حکمتِ عملی اسی تلخ حقیقت کو سامنے رکھ کر بدلنی ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بالآخر یہ جان لینا ضروری ہے کہ دشمن کا اصل ہدف ایران کو تقسیم کرنا ہے۔ اسرائیلی حکام برسوں سے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ایران میں کوئی بھی حکومت ہو، وہ ان کے لیے خطرہ رہے گی؛ خاص طور پر ایرانی قوم کی خودمختاری پسندی، حب الوطنی اور ملک کے قدرتی وسائل کے باعث۔ اسی لیے وہ خوزستان کو ایران سے الگ کرنا چاہتے ہیں تاکہ ملک کو افغانستان جیسے ایک کمزور، بحران زدہ اور مغرب کے لیے قابو پانے کے قابل ملک میں تبدیل کیا جا سکے۔
ایزدی نے واضح کیا کہ مغرب کا ہدف صرف اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ نہیں، بلکہ ایران کی تقسیم ہے۔ اس منصوبے کے لیے پہلے اسلامی نظام کو کمزور کرنا ضروری ہے۔ بعض داخلی مغرب نواز حلقوں کا خیال ہے کہ اگر موجودہ نظام ختم ہوا تو کوئی نیا نظام آ جائے گا ۔ یہ ایک سراسر غلط فہمی ہے، جب کسی ملک کو توڑنا مقصود ہو، تو کسی مضبوط مرکزی حکومت یا نظام کے متبادل کی ضرورت نہیں رہتی۔ دشمن کی یہ خام خیالی کہ "اگر اسلامی جمہوری نظام کا خاتمہ ہو جائے تو لازماً ان کا حامی کوئی نظام آ جائے گا" سراسر غلط اور حقیقت سے کوسوں دور تصور ہے۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ ہم اب ایک سنجیدہ فوجی مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اگر ہم اس حقیقت کو قبول کریں تو دانشمندانہ اور مؤثر ردعمل دے سکتے ہیں۔بصورتِ دیگر، اگر ہم ابھی بھی مذاکرات کے فریب میں مبتلا رہے، تو ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
آپ کا تبصرہ