16 جون، 2025، 3:47 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

نہ میدان جنگ میں، نہ ہی جنگی لباس میں؛ وہ گھریلو خواتیں تھیں اور صہیونی میزائلوں کا نشانہ!

نہ میدان جنگ میں، نہ ہی جنگی لباس میں؛ وہ گھریلو خواتیں تھیں اور صہیونی میزائلوں کا نشانہ!

حالیہ صہیونی حملوں میں، ظالم اسرائیلی ریاست نے ان نہتی اور غیر فوجی خواتین کو براہِ راست اپنے میزائلوں کا نشانہ بنایا جو کسی بھی جنگی محاذ سے کوسوں دور تھیں۔

مہر نیوز ایجنسی، میگزین ڈیسک؛ سرکاری خبروں میں ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ جنگ کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ لیکن کچھ گولیاں اتنی درستگی سے چلائی جاتی ہیں کہ انہیں اندھا دھند نہیں کہا جا سکتا۔ وہ میزائل جو کسی گھر کی چھت یا اس دیوار پر گرتے ہیں جس کے پیچھے ایک عورت کھڑی ہو، ایک عورت جو زندگی کے کاموں میں مصروف ہو۔

صہیونی ریاست کے تازہ ترین مجرمانہ حملوں میں  چند ایرانی خواتین شہید ہوئیں؛  ان کی یہ شہادت دشمن کی سرزمین پر ہوئی  اور  نہ ہی  کسی محاذِ جنگ میں؛ بلکہ اپنے گھروں میں، اپنے شہروں میں، اپنی مادرِ وطن کی سرزمین پر۔ اس زندگی کے بیچ، جو روزمرگی میں خوبصورتی تلاش کرتی تھی؛ کوئی عورت جو مصوری کرتی تھی، کوئی جو کھیلوں کی شوقین تھی، کوئی جو کہانیاں سناتی تھی، کوئی جو محض ایک ماں تھی۔ ان میں سے کسی کے پاس فوجی وردی نہیں تھی، لیکن اس سفاک دشمن کے لیے، شاید صرف ایک عورت کا سانس لینا ہی کافی ہے کہ وہ اسے خطرہ تصور کرے۔

ایک ایسی دنیا میں جہاں کچھ آنکھیں جان بوجھ کر اندھی بنی ہوئی ہیں اور کچھ لوگ سچائی سے خائف، وہاں لازم ہے کہ بلند آواز سے پکارا جائے: صہیونی ریاست ایک منحوس نظام ہے؛ ایک ایسا وجود جو ابتدا ہی سے بچوں اور عورتوں کے خون کا پیاسا اور ان کو بے گھر کرنے پر تلا ہوا ہے اور اسی ظلم کے سائے میں اپنی بقا ڈھونڈتا ہے۔ ایک  ایسا دشمن جو نہ فوج سے ڈرتا ہے نہ مردوں سے، لیکن ایک ماں کی نگاہ سے، ایک بچے کے رونے سے، ایک دیوار پر بنے ننھے ہاتھوں کے خاکے سے لرز اٹھتا ہے۔ یہ ریاست صرف قابض نہیں، انسان دشمن ہے۔ اس کے جرائم اتنے کھلے، اتنے بے حیاء ہیں کہ لفظ "جنگ" بھی ان کا احاطہ نہیں کرتا۔ یہ جنگ نہیں، یہ قتلِ عام ہے؛ ایک سوچا سمجھا جرم اُن سب کے خلاف جو صرف جینا چاہتے ہیں۔

نہ میدان جنگ میں، نہ ہی جنگی لباس میں؛ وہ گھریلو خواتیں تھیں اور صہیونی میزائلوں کا نشانہ!

ہم اُن عورتوں کو نہیں بھولے جو کسی وقت دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوئیں۔ وہ عورتیں جنہوں نے نعرے نہیں، عمل سے تاریخ لکھی۔ جیسے فرنگیس حیدرپور، کرمانشاہی بیٹی، جو بغیر ہتھیار اور محض باپ کے کلہاڑے کے ساتھ دشمن کے ٹینکوں کے مقابلے میں کھڑی ہوئی۔ یا امینہ وهاب‌زاده، وہ نرس جس نے زخمیوں کی کراہ کو خوف کی خاموشی پر ترجیح دی، اور مورچے کو اسپتال پر فوقیت نہ دی، بلکہ خود زخمیوں کا اسپتال بن گئی۔ انہوں نے جنگ کو چُنا تاکہ وطن تنہا نہ رہ جائے؛ کیونکہ اگر وہ نہ کھڑی ہوتیں، تو زمین بھی گر جاتی۔

اور آج، کتنا دکھ ہوتا ہے جب ہم اُن عورتوں کو گرتی دیکھتے ہیں، جو ابھی کھڑی ہونے کا موقع بھی نہ پا سکیں۔ وہ جو نہ کسی جنگی محاذ پر تھیں، نہ ان کے پاس ہتھیار تھے، نہ کوئی پیشگی انتباہ۔ وہ جنہوں نے صرف "زندگی" کو چُنا تھا۔

سالوں سے سفارتی  میدانوں، سرکاری ترجمانوں، اور حتیٰ کہ جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے یہ دعویٰ ہوتا رہا ہے: "ہم غیر فوجیوں کو نشانہ نہیں بناتے" لیکن ہر شہید ہم وطن اس جھوٹ کی زندہ گواہی ہے کہ یہ جنگ صرف دفاع کرنے والوں اور محض جینے والوں میں فرق کرتی ہے۔

جو خواتین شہید ہوئیں، وہ ایک نشانی ہیں۔ اس بات کی علامت کہ جب جھوٹ بار بار دہرایا جائے، تو سچ کو بلند آواز میں پکارنا پڑتا ہے اور اس سے بلند صدا کیا ہو سکتی ہے کہ ایک ایسی عورت کا خون، جو کبھی مورچے میں نہیں گئی، لیکن اس کا نام جنگ کے شہداء کی فہرست میں درج ہے۔

شاید اسی لیے ضروری ہے کہ ان کے نام، ان کے چہرے، ان کی ناتمام کہانیاں سنائی جائیں، تاکہ وہ اجتماعی یادداشت میں صرف "قربانی" نہیں، بلکہ "سچائی کی سند" بن کر زندہ رہیں۔ چاہے وہ حدیث فخاری ہو اور اس کی بیٹی مریم مینائی، جو ایک شیر خوار بچی کی ماں تھی؛ یا منصورہ علیخانی، جو ایک مصورہ تھی؛ یا نجمه (زهرا) شمس، معصومه شهریاری، نیلوفر قلعه‌وند، پرنیا عباسی، مهرنوش حاجی سلطانی؛ یا وہ فرشتہ باقری جو سچائی کی راوی صحافی تھی، اور مرضیه عسگری، جو ایک ماں اور بچوں کی معالج تھی۔

News ID 1933567

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha