16 جون، 2025، 3:36 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

امام موسی کاظم علیہ السلام کا صبر و استقامت مشکل اور صبر آزما گھڑیوں میں ایک مثالی رہنما

امام موسی کاظم علیہ السلام کا صبر و استقامت مشکل اور صبر آزما گھڑیوں میں ایک مثالی رہنما

اگر امام موسی کاظم (علیہ السلام) کا ایک لفظ میں تعارف یبان کیا جائے تو بلا شبہ یوں بیان کرسکتے ہیں کہ امام موسی کاظم علیہ السلام "صبر" اور "استقامت" کا مجسمہ تھے۔

مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک: شیعوں کے ساتویں امام حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی ولادت کے مبارک دن ایران کے شہروں اور مذہبی اجتماعات میں خوشی اور روحانیت کا سماں  ہے۔ امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی زندگی صبر، علم، روحانیت، مہربانی اور سماجی حکمت کا خزانہ ہے۔ آج کا معاشرہ مختلف چیلنجز سے دوچار ہے اور ان مشکلات سے نکلنے کا واحد راستہ اہلِ بیت (علیہم السلام) اور خاص طور پر امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی سیرت سے سبق لینا ہے۔

امام موسی کاظم علیہ السلام صبر اور فعال مزاحمت

حوزہ علمیہ قم کے محقق حجت‌الاسلام ابوالفضل ہاشمی نے خبرگزاری سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: اگر ہم امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی شخصیت کو کسی ایک وصف میں بیان کریں، تو وہ صبر و پائیداری ہوگا۔ امام (علیہ السلام) نے عباسی خلفاء کے ظلم و ستم کے دور میں زندگی گزاری، جب اہلِ بیت (علیہم السلام) اور ان کے ماننے والوں پر سخت مظالم ڈھائے جا رہے تھے۔ ان سب سختیوں کے باوجود، امام (علیہ السلام) نے برسوں عباسی زندانوں میں قید رہ کر بھی شیعوں کی رہنمائی اور تربیت کا عمل ترک نہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ امام کا صبر صرف ذاتی برداشت نہ تھا، بلکہ ایک بیدار اور باشعور مزاحمت تھا۔ قید میں رہتے ہوئے بھی امام (علیہ السلام) نے خطوط اور خفیہ تعلیمات کے ذریعے شیعہ فکر کو زندہ رکھا اور امت کو اتحاد اور امید کا پیغام دیا۔ یہ صبر دراصل ایک حکمتِ عملی تھا جس نے دینی شناخت اور اقدار کو زندہ رکھا۔

امام موسی کاظم علیہ السلام کی سیرت طیبہ علم اور روحانیت کا حسین امتزاج

امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی علمی اور روحانی عظمت پر بات کرتے ہوئے  ابو الفضل ہاشمی نے کہا کہ امام (علیہ السلام) کو نہ صرف شیعوں میں بلکہ اہلِ سنت اور غیر مسلم دانشوروں کے ہاں بھی ایک عظیم عالم اور صاحبِ کرامت  کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ عباسی دور کے علما و متکلمین کے ساتھ مناظرے  آپ علیہ السلام کے علم و دلیل کے اعلی نمونے ہیں۔

امام  علیہ السلام کے بے کراں علم و دانش کے ساتھ ساتھ آپ علیہ السلام کی رات کی عبادتیں اور سجدوں کی طویل مدت خاص و عام میں معروف تھیں۔ آپ نے علم و عبادت کو ساتھ لے کر ہشام بن حکم اور علی بن یقطین جیسے شاگردوں کی تربیت کی  اور حقیقیت بندگی  کی مثالیں قائم کیں ۔ امام موسی کاظم (علیہ السلام) ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ علم اگر تہذیب  نفس اور  تقوی کے بغیر ہو تو وہ انسان کو کسی صحیح منزل تک نہیں پہنچا سکتا۔ آپ کی یہ سیرت ہر دور کے اہلِ علم اور دانشوروں کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے۔

سخاوت، خدمت اور سماجی ہمدردی

اسلامی معارف کے ماہر حجت‌الاسلام رضا ابراہیمی نے بتایا کہ امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی زندگی کا ایک درخشاں پہلو اُن کی خدمتِ خلق اور انسانی ہمدردی تھی۔ آپ رات کے وقت خاموشی سے فقراء اور ضرورتمندوں کے گھروں میں امداد پہنچاتے، یہاں تک کہ اکثر لوگ امام کی شہادت کے بعد جان پائے کہ وہ خیر خواہ دراصل امام کاظم (علیہ السلام) تھے۔

انہوں نے کہا امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی بخشش اور انفاق میں نہ کوئی نمائش ہوتی تھی اور نہ ہی اپنا نام ظاہر کرتے تھے، جو ان کی نیت کی پاکیزگی اور عاجزی کی علامت تھا۔ امام کا عقیدہ تھا کہ انسانی عظمت اور عزت ہر منصب اور نسب سے بالاتر ہے، اور سب کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ سخت سیاسی و سماجی حالات میں امام (ع) نے اپنے ان اعمال کے ذریعے نہ صرف تشیع کی شناخت کو مضبوط کیا بلکہ معاشرے میں مہربانی اور ہمدردی کی ثقافت کو  بھی فروغ دیا۔ 

انہوں نے زور دے کر کہا: امام موسی کاظم (علیہ السلام ) کی سیرت کا یہ پہلو آج کے معاشرے کے لیے نہایت سبق آموز ہے؛ محروموں کی خبرگیری، بغیر کسی احسان جتائے عزت کے ساتھ مدد کرنا، اور ضرورت مندوں کی طرف توجہ دینا، ایک روحانی طور پر صحت مند معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔

امام موسی کاظم علیہ السلام کی گھٹن ماحول میں مؤثر سماجی قیادت

رضا ابراہیمی نے کہا کہ امام (علیہ السلام) نے بنی عباس  کے سخت ترین دور میں بھی اپنی دوراندیشی اور تدبیر سے ایک وکالتی نظام قائم کیا، جس کے ذریعے تمام اسلامی مناطق میں شیعوں سے رابطہ قائم رکھا گیا۔
 اسلامی معارف کے ماہر نے وضاحت کی: یہ نیٹ ورک صرف دینی اور فقہی سوالات کے جوابات کے لیے نہیں تھا، بلکہ شیعوں کی مالی معاونت اور سماجی بحرانوں کے نظم و نسق کے لیے بھی تشکیل دیا گیا تھا۔ امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے اسی حکمتِ عملی سے تشیع کے تسلسل کو سخت ترین حالات میں بھی یقینی بنایا۔

انہوں نے تاکید کی کہ آج بھی اس طرزِ قیادت سے سبق لیا جا سکتا ہے؛ یعنی دباؤ اور پابندیوں کے ماحول میں بھی، عوامی رابطے، اعتماد سازی اور سماجی مدد کے ذریعے ایک مضبوط اور متحرک معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

باب‌الحوائج کاعوامی اور روحانی  قیادت میں بنیاد ی کردار

رضا ابراہیمی نے امام موسی کاظم (علیہ السلام) کے لقب "باب‌الحوائج" پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ لقب محض اتفاق سے  نہیں ملا، بلکہ عوامی اعتماد اور روحانی اثر کا مظہر ہے۔ لوگ  امام علیہ السلام کی قید کے دوران بھی  آپ علیہ السلام سے دعا اور شفاعت کی امید رکھتے تھے اور ان کی حاجات پوری ہوتی تھیں۔ تاریخی روایات میں امام سے منسوب بے شمار کرامات اور دعاؤں کی قبولیت کا ذکر ملتا ہے۔ یہ خصوصیت اس بات کا ثبوت ہے کہ امام (علیہ السلام) عوام سے گہرا تعلق رکھتے تھے اور ان کی مشکلات کو اپنا سمجھ کر اُن کے لیے دعا گو ہوتے تھے۔ یہی طرزِ عمل آج کے رہنماؤں کے لیے ایک روشن مثال ہونا چاہیے۔

News ID 1933566

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha