13 مارچ، 2025، 1:20 PM

ٹرمپ کی حکمت عملی امریکہ کو تقسیم کرسکتی ہے، نیویارک ٹائمز

ٹرمپ کی حکمت عملی امریکہ کو تقسیم کرسکتی ہے، نیویارک ٹائمز

امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنی موجودہ حکمت عملی کے زریعے امریکہ کو کئی ٹکروں میں تقسیم کرسکتی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز صدر ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں کو ملک کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔

اخبار میں امریکی تجزیہ نگار تھامس ٹرومین نے لکھا ہے کہ ٹرمپ حکومت کی پالیسی وہی ہے جو 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے دوران جارج ڈبلیو بش کی حکومت نے اپنائی تھی۔

فریڈمین لکھتے ہیں کہ آج امریکہ ایک بار پھر شدت پسند دائیں بازو کے عناصر کے کنٹرول میں آچکا ہے، جو حکومت کو تنوع، مساوات، ماحولیاتی تحفظ، صاف توانائی، اور غیر ملکی امداد جیسے تصورات سے خالی کرنا چاہتے ہیں۔

فریڈمین کے مطابق یہ پالیسی محض ایک دھوکہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایلون مسک اور ان کے ساتھی ایک انتہا پسند گروہ کا حصہ ہیں، جو ریپبلکن اسٹریٹجسٹ گروور نورکویسٹ کے خواب کو حقیقت بنانا چاہتے ہیں۔ نورکویسٹ کا نظریہ یہ ہے کہ حکومت کو اتنا چھوٹا کردو کہ اسے غسل خانے میں لے جا کر پانی میں ڈبوکر ختم کیا جاسکے۔

کالم نگار لکھتے ہیں کہ میں حکومت کے حجم کو کم کرنے کے خلاف نہیں ہوں، بلکہ میں چاہتا ہوں کہ یہ صورت حال بہتر ہو۔ اصل میں، ایلون مسک اور ان کی ٹیم اس پالیسی کو فروغ نہیں دے رہی، بلکہ ان کا رویہ ایک وسیع تر جاگیردارانہ منصوبے کا حصہ ہے۔ مسک اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ امریکی انتظامی ڈھانچے کو ایک 'چکی' میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے، قومی اداروں جیسے کہ 'نیشنل اکیڈمی آف ہیلتھ' کو ختم کرنے، اور 'قومی موسمیاتی سروس' میں ماحولیاتی سائنس دانوں کو الگ تھلگ کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔

اپنے مضمون میں، فریڈمین ایک اور اہم نکتہ اٹھاتے ہیں کہ فرض کریں کہ امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا یہ بیان کہ ٹرمپ کی جانب سے اس ایجنسی کو تحلیل کرنے اور غیر ملکی امداد بند کرنے سے 18 ملین افراد کو ملیریا ہوسکتا ہے؛ 200,000 افراد پولیو کا شکار ہوسکتے ہیں اور متعدی بیماریوں جیسے ایبولا اور ماربرگ کے 28,000 نئے کیسز سامنے آسکتے ہیں، اگر یہ حقیقت ہو تو پھر کیا ہوگا؟

فریڈمین، ٹرمپ حکومت میں کی جانے والی تقرریوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سابق جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل چارلس کیو براون جونیئر، جیسے تجربہ کار اور قابل افسر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اس کے برعکس، پیٹر ہگسٹ کو ایک اہم حکومتی عہدہ دیا گیا ہے جو فاکس نیوز کے ایک درجہ دوم کے میزبان ہیں اور جن کی اپنی والدہ نے ان پر خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا الزام لگایا ہے۔

فریڈمین مزید لکھتے ہیں کہ پیٹر ہگسٹ، کش پٹیل، تولسی گبارڈ، اور جان ایف کینیڈی جونیئر جیسے افراد وہ لوگ ہیں جنہیں ایلون مسک اپنے ادارے ٹیسلا یا کسی بھی ذیلی کمپنی میں سیلز نمائندے کے طور پر بھی ملازمت نہ دیتے، مگر ٹرمپ نے انہیں محض اس بنیاد پر اہم عہدوں پر فائز کیا کہ وہ دوسرے درجے کے نظریاتی ہیں اور اقتدار میں آنے سے پہلے ان کی حمایت کرتے رہے۔

اپنے کالم کے آخر میں فریڈمین لکھتے ہیں کہ اگرچہ امریکہ نے دنیا میں لبرل نظام کے قیام کے لیے دوسروں سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے، لیکن اس نے اس عالمی نظم و استحکام میں اپنے حصے کا فائدہ اٹھایا اور خود کو دنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط معیشت میں تبدیل کرلیا ہے۔

News ID 1931066

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha