مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا سرحدی شہر پاراچنار کئی سال سے تکفیریوں کے محاصرے میں ہے۔ اسلام دشمنوں نے تکفیری دہشت گردوں کو جدید ہتھیاروں سے مسلح کیا ہے جس کی وجہ سے نہتے اور مظلوم شہریوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ گذشتہ دنوں یہ سلسلہ عروج پر پہنچا جب تکفیریوں نے پاراچنار کے شیعوں کو راستے میں شہید کردیا۔
جمعرات کو پاراچنار اور پشاور کے درمیان سفر کرنے والے دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنے جس میں 45 افراد شہید ہوگئے۔ شہداء میں 11 عورتیں، 7 شیرخوار بچے اور 6 حاملہ عورتیں بھی شامل ہیں۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق نومولود بچوں کے منہ میں گولیاں ماری گئیں۔
پاکستانی صحافی سید علی احمر زیدی نے کہا کہ تکفیری دہشت گردوں نے پشاور اور پاراچنار کے راستے میں سفر کرنے والے بے گناہ مسلمانوں پر حملہ کیا جس میں اب تک مجموعی طور پر 108 شہید ہوگئے ہیں۔ شہداء میں 12 شیرخوار بچے بھی شامل ہیں۔ دہشت گرد حملے میں سینکڑوں زخمی ہوگئے ہیں جبکہ پاراچنار کے کچھ شہری لاپتہ ہیں جن کی کوئی خبر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بسوں پر حملے کے بعد کئی شہری بسوں سے اتر گئے اور قریبی مقامات کی طرف پناہ لینے کے لئے دوڑے لیکن دہشت گردوں نے ان کا پیچھا کیا اور شہید کردیا۔ دہشت گرد مقامی گھروں میں بھی داخل ہوگئے جہاں مسافر جان بچانے کے لئے چھپ گئے تھے۔
دہشت گرد واقعے کے بعد آیت اللہ سیستانی نے دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ مظلوم اور نہتے عوام کی جان کی حفاظت کے لئے اقدامات کیے جائیں۔
پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے دہشت گرد حملے کو دشمنوں کی کاروائی قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی۔
ایرانی صدر پزشکیان نے اور پارلیمنٹ کے سربراہ محمد باقر قالیباف نے اپنے پیغامات میں پاکستانی عوام اور حکومت کو تعزیت پیش کی۔
ملک بھر میں عوامی مظاہرے
پاراچنار میں دہشت گرد حملے کے بعد جمعہ کے دن پورے پاکستان میں عوامی مظاہرے اور احتجاجی ریلیاں منعقد کی گئیں۔ اسلام آباد سمیت بڑے شہروں میں نماز جمعہ کے بعد لوگوں نے ریلی نکالی اور دہشت گرد حملے کی مذمت کی اور حکومت اور پاک فوج سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین دہشت گردوں اور تکفیریوں کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے۔
احتجاجی مظاہروں سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ پاراچنار میں شیعہ مسلمانوں پر حملہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کو ختم کرنے کی مذموم سازش ہے۔ حکومتی اور دفاعی حکام کو چاہئے کہ پاراچنار کے مسائل حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ پاراچنار کے مسائل حل نہ ہونے کی صورت میں دوسرے علاقے بھی فسادات کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔
پاکستانی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے پاراچنار کے مسلمانوں پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کی اور حکومت اور سیکورٹی فورسز سے مسافر راستوں کی حفاظت یقینی بنانے کی اپیل کی۔
پاراچنار کا محل وقوع
پاراچنار صوبہ خیبر پختونخوا کا سرحدی شہر ہے جس کے دوسری طرف افغانستان واقع ہے۔ یہ شہر پاکستان کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ چند سال پہلے آئینی ترمیم کے بعد پاراچنار بھی دوسرے قبائیلی ایجنسیوں کے ساتھ خیبر پختونخوا سے ملحق ہوگیا ہے۔
پاراچنار کے ساتھ افغانستان کے صوبے پکتیا، کوست، ننگرہار اور لوگر وااقع ہیں جبکہ پاکستان قبائیلی علاقے وزیرستان بھی پاراچنار کے نزدیک ہے۔ پشاور اور پاراچنار کے راستے میں تکفیری عناصر بھی رہتے ہیں اسی وجہ سے پاراچنار محاصرے میں رہتا ہے۔ تکفیری عناصر مختلف بہانوں سے پاراچنار پر چڑھائی کرتے رہتے ہیں۔
گذشتہ چند سالوں کے دوران علاقے کی حفاظت پر مامور سیکورٹی فورسز کی بے حسی کے نتیجے میں پاراچنار پر کئی مرتبہ حملہ کیا گیا ہے۔ دہشت گرد حملوں میں کئی مرتبہ خواتین اور بچوں سمیت جوان اور بوڑھے شہید ہوگئے ہیں۔ ان حملوں کی وجہ سے پاراچنار میں نظام زندگی شدید متاثر ہوگئی ہے۔
پاراچنار کی سیکورٹی فوج کے پاس ہے اور یہی ادارہ پاراچنار اور پشاور کا راستہ بھی محفوظ رکھنے کا پابند ہے۔ راستے میں کئی مقامات پر چیک پوسٹیں قائم ہیں اس کے باوجود تکفیری دہشت گرد آسانی کے ساتھ راستے میں پاراچنار کے شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں اور فرار ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
2007 میں پاراچنار میں طویل عرصہ تصادم ہوا جس میں تکفیری دہشت گردوں نے شہر کا محاصرہ کیا۔ 2012 سے 2013 کے ایک سال کے دوران دہشت گردوں نے 77 حملے کیے جس میں مجموعی طور پر 635 شہری شہید ہوگئے جبکہ اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوگئے۔
غیر ملکی ایجنسیاں تکفیریوں کو اسلحہ فراہم کرتی ہیں
رواں سال کے دوران زمینوں کی ملکیت کے بہانے پاراچنار پر دوبارہ جنگ مسلط کی گئی۔ اس دوران تکفیریوں نے پاراچنار کے شہریوں کے خلاف بھاری ہتھیار استعمال کیا۔ بعض ذرائع نے ایسی اسناد پیش کی ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صہیونی حکومت اور مغربی ایجنسیاں علاقے کے تکفیریوں کو مسلح کرتی ہیں تاکہ پاکستان میں شیعوں کا خون بہایا جائے۔
حالیہ عرصے میں پاراچنار کے مسلمانوں کو خون بہانے کے لئے زمینوں کے تنازعہ پیش کیا جارہا ہے۔ پاراچنار کے مقامی رکن اسمبلی نے اس حوالے سے کہا کہ ضلع کرم کی زمینوں کا مکمل ریکارڈ حکومت کے پاس ہے لہذا زمینوں کا تنازع کوئی ناقابل حل مسئلہ نہیں ہے۔ اگر حکومت سنجیدہ ہے تو مختصر مدت میں حل کرسکتی ہے۔ ان فسادات اور حملوں کا اصل سبب زمینی تنازع نہیں ہے۔
حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کی وحدت اور انسجام کو برقرار رکھنے کے لئے فوری اور سنجیدہ اقدامات کرے۔ دشمن مخصوصا صہیونی عناصر فلسطین اور لبنان کے بعد دوسرے ممالک میں بھی بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانا چاہتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ پاراچنار کے مظلوم مسلمانوں کی حفاظت کے لئے اقدامات کرتے ہوئے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنائے۔
تکفیری جنایت کار عالمی استکبار اور بین الاقوامی صہیونیزم کے ایجنٹ ہیں جن کا اصلی ہدف مسلمانوں کے درمیان اختلافات ایجاد کرنا اور مظلوم مسلمانوں کا قتل عام ہے۔
آپ کا تبصرہ