مہر خبررساں ایجنسی، پیمان یزدانی- انٹرنیشنل ڈیسک: 31 جولائی کو صبح کے وقت حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو، جو ایرانی صدر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے تہران گئے تھے، کو شہید کر دیا گیا۔
اس دہشت گردانہ کارروائی پر عالمی اور علاقائی ردعمل سامنے آیا اور مزاحمتی گروہوں نے الگ الگ پیغامات میں اس بھیانک جرم کی مذمت کرتے ہوئے شہید اسماعیل ہنیہ کے خون کا بدلہ لینے پر زور دیا۔
اس حوالے سے مہر نیوز کے رپورٹر نے روس کی خبر رساں ایجنسی اسپوتنک کے مشرق وسطیٰ کے شعبے کے سربراہ "ایوان زخاروف" کا انٹرویو کیا جو کہ حسب ذیل ہے:
مہر رپورٹر: صیہونی رجیم میدان جنگ کے بجائے بزدلانہ کاروائیوں کا سہارا کیوں لیتی ہے؟ کیا یہ اقدامات میدان جنگ میں اپنے اہداف کے حصول میں صہیونیوں کی کمزوری اور ناکامی کا نتیجہ ہیں؟
زخاروف: اسرائیل اپنے اسٹریٹجک مقاصد کے لئے حزب اللہ اور حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بناتا ہے۔ تاہم دہشت گردی کی یہ کارروائیاں بغیر جواب کے نہیں رہیں گی۔
مہر نیوز؛ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل نے ایک بار پھر مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھا دی ہے۔ ایک طرف صیہونی رجیم اور امریکہ مذاکرات، جنگ بندی اور امن کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ دوسری طرف ایسی اشتعال انگیز کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ان کارروائیوں کے خطے پر کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟
اسرائیل کے اقدامات، جو ایک طرف مذاکرات اور فلسطین اسرائیل تنازعہ کے پرامن حل پر زور دیتے ہیں اور ساتھ ہی حماس اور حزب اللہ کے رہنماؤں کو قتل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں، خطے کے لیے پیچیدہ نتائج کا باعث بن سکتے ہیں اور ایسی حرکتیں تشدد کو بڑھا سکتی ہیں۔
دوسرا، یہ طرزعمل خطے میں مغرب مخالف جذبات کو بڑھا سکتا ہے۔ تیسرا، ٹارگٹ کلنگ طویل مدت میں تنازعات کے پرامن حل کو مزید مشکل بنا سکتی ہے اور خطے میں عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔
آپ دہشت گردی، خاص طور پر ریاستی دہشت گردی کے معاملے پر مغربی ممالک کے دوہرے روئے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
دہشت گردی، خاص طور پر ریاستی دہشت گردی کے حوالے سے مغرب کا دوہرا نقطہ نظر بہت متنازعہ رہا ہے اور اس کے کئی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کی اہمیت پر زور دیتے ہیں لیکن دوسری طرف یہی مغربی ممالک دہشت گردانہ کاروائیاں کرتے ہیں۔ مغرب کا یہ دوہرا رویہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔
http://mehrnews.com/x35FV3
آپ کا تبصرہ