مہر نیوز ایجنسی، انٹرنیشنل ڈیسک؛ ترکی میں صدارت اتنخات نزدیک ہونے کے ساتھ 2002 سے اقتدار پر قابض صدر رجب طیب اردگان اور عوامی جہموری پارٹی کے امیدوار کمال قلیچدار اوغلو کے درمیان مقابلہ شدت اختیار کررہا ہے۔ اقتدار پر حاکم جماعت کی شکست کی صورت میں ترکی میں سیاسی اور اقتصادی تبدیلی ہے لیکن اس کے باوجود خطے اور بین الاقوامی صورتحال کے پیش نظر ملکی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی امید کم ہے۔
مہر نیوز نے اس حوالے سے الباما یونیورسٹی امریکہ کے سیاسی شعبے کے سابق استاد پروفیسر نادر انتصار سے انٹرویو لیا جو قارئین کی خدمت پیش کیا جاتا ہے۔
ترکی کی خارجہ پالیسی کن بنیادوں پر استوار ہے؟
ترکی میں جمہوری حکومت کے قیام کے بعد ملک ایک جدید اور سیکولر اسٹیٹ میں بدل گیا جس نے مغرب کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور دفاعی تعلقات قائم کئے۔ 1952 میں ترکی جب نیٹو کا رکن بن گیا اس میں مزید تیزی آئی اور ترکی ایک کمیونسٹ مخالف ریاست بن گیا۔ ترکی کی خارجہ پالیسی میں مغرب کے ساتھ وفاداری کو اہمیت دی گئی۔
2002 میں رجب طیب اردگان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی اس پالیسی میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ جسٹس اینڈ ڈیولمپنٹ پارٹی نے ترکی کو یورپی یونین میں رکنیت دلانے کے لئے سیاسی اور اقتصادی اصلاحات انجام دیں۔ ہمسایوں کے ساتھ کشیدگی کو مکمل ختم کرنے کے نعرے کے تحت خارجہ پالیسی کو بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ اس پالیسی کے نتیجے میں اردگان حکومت کی خارجہ پالیسی اس کے پہلے عشرے میں ہی کسی حد واضح ہوگئی اور مغربی ایشیا، وسطی ایشیا اور بین الاقوامی سطح پر ترکی کے تجارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ اثر رسوخ میں بھی اضافہ ہوا۔
اقتدار کے دوسرے عشرے میں اس پارٹی نے اقتدار طلبی میں اپنی پالیسی میں تبدیلی لانا شروع کی۔ میڈیا پر کنڑول کی کوشش کی گئی۔ مخالفین کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا۔ خارجہ پالیسی میں کچھ سختیاں دکھائی گئیں اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں اپنے نعرے سے انحراف کیا گیا۔ مشرق اور مغرب کے ساتھ تعلقات کو متوازن بنانے کے لئے مغرب اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کمی لائی گئی۔ جدید جمہوری دور میں ترکی کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں قابل مشاہدہ ہیں۔
اگر اردغان کے مخالفین انتخابات میں کامیاب ہوجائیں تو اس خدوخال میں تبدیلی متوقع ہے یا حسب سابق خارجہ پالیسی برقرار رہے گی؟
آئندہ انتخابات میں اردوگان کی شکست کی صورت میں ترکی کی خارجہ پالیسی کے طور وطریقے میں تبدیلی ممکن ہے لیکن بنیادی تبدیلی کی کوئی امید نہیں ہے۔ البتہ اتنی تبدیلی متوقع ہے کہ اردگان کے بعد ترکی کی خارجہ پالیسی ذاتی محور پر استوار نہیں ہوگی۔ اسی طرح مغرب کے ساتھ روابط پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔ اقتصادی پالیسی میں یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دی جائے گی۔ ترک معیشت کو ترقی اور برامدات میں توسیع کے لئے کچھ بنیادی تبدلیاں متوقع ہیں۔
عراق پر امریکی حملوں کے بعد ترکی نے جیوپولیٹک ضروریات کے پیش نظر خودمختار خارجہ پالیسی اپنائی جس کے نتیجے میں مغربی اتحادیوں اور امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی، اردوگان کی شکست کی صورت میں اس پالیسی میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے؟
اس بات کا زیادہ احتمال ہے کہ خطے کے بارے میں ترکی کی خارجہ پالیسی میں جزوی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں لیکن اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ انقرہ اپنی خارجہ پالیسی کو کوئی بڑی تبدیلی لائے۔
آپ کا تبصرہ