مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوری ایران کی یونیورسٹیاں عالمی درجہ بندی کے نظام کا حصہ بن گئی ہیں جس کے تحت اس سال گذشتہ کی نسبت کئی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ 2017۔2018 کے بعد ایرانی یونیورسٹیوں کے رتبے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس عرصے میں ایرانی یونیورسٹیوں نے تعلیمی، تحقیقی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں قابل قدر ترقی کی ہے۔
یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کے عالمی نظام میں مختلف شعبوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے؛ بعض میں تعلیمی کارکردگی اور بعض میں تحقیقی شعبے میں ہونے والی ترقی اور بعض میں جدید سہولیات اور ٹیکنالوجی سے استفادے کی شرح کے مطابق رینکنگ جاری کی جاتی ہے۔
ذیل میں عالمی سطح پر رائج درجہ بندی کے مختلف نظاموں کے مطابق ایرانی یونیورسٹیوں کی رینکنگ کا جائزہ لیا گیا ہے۔
1۔ "کیو ایس" کی درجہ بندی
"کیو ایس" عالمی سطح پر یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کا معتبر ترین نظام ہے جو برطانوی ادارے کاکارلی سیمونڈز کے تحت کام کرتا ہے۔ ادارے نے اپنے معیارات کے مطابق جاری کی گئی درجہ بندی میں چھے ایرانی یونیورسٹیوں کو دنیا کے 700 یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی اداروں کی فہرست میں شامل کیا ہے جس میں سے شریف انڈسٹریل یونیورسٹی 380 ویں نمبر پر ہے۔
2۔ ٹائمز ہائیر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ
ٹائمز کا شمار دنیا کے معروف نظاموں میں ہوتا ہے جو عالمی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی اور رتبہ بندی کرتا ہے۔ اس ادارے کے تحت یونیورسٹیوں کی درجہ بندی میں تعلیمی ماحول، ریسرچ، جدید سہولیات اور انسانی وسائل وغیرہ کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ادارے نے 65 ایرانی یونیورسٹیوں کو اپنی فہرست میں شامل کیا ہے جس میں سے گلستان میڈیکل یونیورسٹی، کردستان میڈیکل یونیورسٹی اور مازندران میڈیکل یونیورسٹی کو 350 سے400 ویں درجے پر رکھا گیا ہے۔
3۔ شنگھائی درجہ بندی
حالیہ سالوں میں اس ادارے کے جاری کردہ اعداد و شمار عالمی سطح پر مقبول ہورہے ہیں۔ یہ ادارہ دی اکانومسٹ کے تحت ہونے والے سروے کے مطابق درجہ بندی جاری کرتا ہے۔ اس نظام میں تعلیمی ادارے کی تعلیمی کیفیت، ریسرچ آوٹ پٹ اور ایجوکیشن کمیٹی کی علمی قابلیت کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ادارے نے 11 ایرانی یونیورسٹیوں کو اپنی درجہ بندی میں جگہ دی ہے جس میں تہران یونیورسٹی کو 300 سے 400 کے درمیان رکھا ہے۔
4۔ آئی ایس سی
مسلمان ممالک کی یونیورسٹیوں کی رینکنگ جاری کرنے والے ادارے نے اپنی طرف سے جاری کردہ رتبہ بندی میں 63 ایرانی یونیورسٹیوں کو منتخب کرنے کے بعد تہران یونیورسٹی اور تہران میڈیکل یونیورسٹی کو 400 سے 450 کے درمیان درجہ دیا ہے۔
5۔ سی ڈبلیو یو آر
عالمی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی جاری کرنے والے ایک اور ادارے سینٹر فار ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ تعلیمی اداروں میں تعلیمی کیفیت، فارغ التحصیل طلباء کی ملازمت اور علمی پیداوار وغیرہ کو دیکھنے کے بعد رینکنگ جاری کرتا ہے۔ اس ادارے نے 40 ایرانی یونیورسٹیوں کو اپنی رتبہ بندی میں جگہ دینے کے بعد آزاد یونیورسٹی کو 352 ویں رتبے پر رکھا ہے۔
6۔ نیچر انڈیکس
یونیورسٹیوں کی درجہ بندی جاری کرنے والے اس ادارے کے مطابق تعلیمی اداروں کے تحقیقی مقالہ جات کو معیار بنایا جاتا ہے۔ ادارے نے ایران کو عالمی ممالک میں 30 درجے پر قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ سال ادارے نے ایران کو 36 ویں رتبے پر رکھا تھا۔
7۔ ویبو میٹرکس
یہ ادارہ اسپین کے تجربہ گاہ سائبر میٹرکس کے تحت درجہ بندی جاری کرتا ہے۔ اس ادارے کا معیار تعلیمی اداروں کی ویب سائٹ پر جاری مطالب ہوتے ہیں۔ درجہ بندی جاری کرنے کا اصل مقصد عام لوگوں کی دسترس کے لئے انٹرنیٹ پر زیادہ سے علمی مواد کی فراہمی ہے۔ ادارے نے اپنی درجہ بندی میں تہران یونیورسٹی، تہران میڈیکل یونیورسٹی، شہید بہشتی میڈیکل یونیورسٹی، شریف انڈسٹریل یونیورسٹی اور امیر کبیر انڈسٹریل یونیورسٹی کو شامل کیا ہے۔
8۔ گرین میٹرک
گرین میٹرک ورلڈ یونیوسٹی رینکنگ عالمی طور پر تعلیمی اداروں کی ترقی اور ماحولیات کے حوالے سے پروگرام پیش کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ ادارے نے 1050 عالمی تعلیمی اداروں کے بارے میں تحقیقات کے بعد 45 ایرانی تعلیمی اداروں کو اپنی فہرست میں جگہ دی ہے۔ زنجان یونیورسٹی کو ایران میں پہلے اور عالمی رینکنگ میں 107 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔
9۔ یو ایس نیوز
یو ایس نیوز کسی بھی تعلیمی ادارے کے عالمی اور علاقائی سطح پر رسرچ آوٹ پٹ، کتاب اور مقالوں کی نشر و اشاعت کے مطابق رینکنگ جاری کرتا ہے۔ ادارے نے 52 ایرانی یونیورسٹیوں کو اپنی فہرست میں جگہ دی ہے جس میں سے تہران یونیورسٹی کو عالمی درجہ بندی میں 3229 ویں، آزاد یونیورسٹی کو 394 ویں، تہران میڈیکل یونیورسٹی کو 517 ویں رتبے پر رکھا ہے۔
10۔ لائڈن
لائڈن کا نظام بھی دنیا کے معتبرترین نظاموں میں سے ایک ہے جس میں تعلیمی، نشر و اشاعت اور علمی پیداوار وغیرہ کو معیار بنایا جاتا ہے۔ اس ادارے نے 44 ایرانی یونیورسٹیوں کو اپنی فہرست میں شامل کیا ہے۔ گذشتہ سال یہ تعداد 36 تھی۔
آپ کا تبصرہ