4 دسمبر، 2022، 5:38 PM

بحرینی رہنما کا مہر نیوز سے خصوصی گفتگو:

غاصب صیہونی حکومت کے سربراہ کا دورہ بحرین اسلام کے خلاف اعلان جنگ ہے

غاصب صیہونی حکومت کے سربراہ کا دورہ بحرین اسلام کے خلاف اعلان جنگ ہے

بحرینی رہنما عبداللہ صالح نے اسرائیلی صدر کے دورہ بحرین کے متعلق کہا کہ یہ درست نہیں کہ اس طرح کے دورے صرف دوطرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں کیونکہ ان کے پیچھے اس سے بھی بڑے مقاصد ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی - انٹرنیشنل ڈیسک: خیال رہے کہ غاصب صیہونی حکومت کے سربراہ اسحاق ہرٹزوگ بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ کی دعوت پر آج (4 دسمبر 2022) کو سرکاری دورے پر منامہ پہنچ رہے ہیں۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب تل ابیب اور منامہ کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے پر دستخط کو دو سال ہوچکے ہیں۔ صہیونی میڈیا کا کہناہے کہ یہ دورہ بحرین و اسرائیل کے مابین دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔

جبکہ بحرین کے عوامی حلقوں میں اس دورے کے بارے میں شدید غصہ اور تشویش پائی ہے اور حالیہ دنوں میں بحرینی عوام نے اس دورے کے خلاف متعدد احتجاجی مظاہرے کیے ہیں اور بحرین بھر میں فلسطینی پرچم لہرا کر غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے حکومتی اقدام کی پر زور مخالفت کی ہے۔

اس سلسلے میں مہر نیوز نے بحرین کی اسلامی تحریک "العمل الاسلامی" کے رہنما شیخ عبداللہ صالح سے خصوصی گفتگو کی۔ شیخ عبداللہ صالح کا کہنا تھا کہ غاصب صہیونی حکومت کے سربراہ کا دورہ بحرین اسلام اور مقاومت کے محور کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ 

شیخ صالح نے اس سلسلے میں زور دے کر کہا کہ غاصب صہیونی حکومت کے اعلی حکام نے حالیہ مہینوں میں مسلسل بحرین اور متحدہ عرب امارات کے دورے کیے ہیں۔ اسی طرح صہیونی رہنماؤں نے خلیج فارس کے علاقے کے دوسرے ملکوں کے دورے بھی کیے ہیں جنہیں منظر عام پر نہیں لایا جاتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ان مسلسل دوروں اور یکساں طرز کے اقدامات کے پس پردہ دین اسلام کے خلاف عالمی جنگ جیسے بڑے منصوبوں اور واقعات کے عزائم کار فرما ہیں لہذا یہ بات درست نہیں کہ ان دوروں کا مقصد صرف دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔

بحرینی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ البتہ یہ بات صحیح ہے کہ غاصب صہیونی اپنے فلسطین میں باقی رہنے اور اپنے جعلی وجود کو دوام بخشنے کے حوالے سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں تاہم اصل مسئلہ اس سے بھی بڑا ہے، یہ لوگ ان دوروں کے ذریعے اسلام کے خلاف عالمی جنگ کے آغاز کے لئے خطے کی صورتحال کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے بے تحاشا سازشیں انجام دی ہیں جیسے کہ ابراہیمی معاہدے پر دستخط کرنا، ہم جنس پرستی کو فروغ دینا، معاشروں میں فساد اور بے راہروی پھیلانا اور خطے میں بعض امریکی سفارت خانوں میں نوجوانوں کے لیے طے شدہ اہداف کے تحت ٹارگٹڈ ٹریننگ کورسز کا انعقاد کرنا بھی انہی سازشوں کا حصہ ہیں۔

العمل الاسلامی تحریک کے رہنما نے زور دے کر کہا کہ آج کی عالمی جنگ ماضی کی جنگوں سے مختلف ہے۔ ان جنگوں میں کلاسیکی فوجوں کے درمیان فوجی تصادم اہم نہیں ہوتا لیکن دوسری طرف اصل ہدف خطے کے ممالک کو تباہ کرنا اور باشعور اور آگاہ شخصیات اور باصلاحیت افراد کو ختم کرنا ہے جن میں اسلامی بیداری کے ہیروز بھی شامل ہیں اور ہم دیکھ رہے کہ وقتاً فوقتاً اسلامی بیداری کے علمبرداروں کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے ان تمام اقدامات کا مقصد ان ملک پر تلسط قائم کر کے اپنے کنٹرول لینا ہے۔

شیخ صالح نے مزید کہا کہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ صہیونی لیڈروں کے بحرین کے دوروں کا مقصد بحرین میں دین اسلام کو تباہ کرنا اور اس ملک میں شیعوں کی بیخ کنی کرنا ہے تاکہ درنہایت بحرین میں مزاحمت، مقاومت، خودمختاری اور آزادی کے جذبے کی بنیادوں کو خشک کرسکیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ لوگ یہاں زمین خرید رہے ہیں اور منامہ کے ایک علاقے میں ایک "یہودی محلہ" بنا چکے ہیں، اسی طرح یہ لوگ صہیونی مقاصد کے تحت جزیرہ نما تاروت جیسے علاقوں میں بھی زمین خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ درحقیقت انہوں نے میدان میں حقیقی جنگ شروع کر دی ہے۔ اسی بنیاد پر ہم صہیونی رہنماؤں کے دوروں کو دین اسلام، مقاومت کے محور اور تمام باعزت اور حریت پسندوں کے خلاف اعلان جنگ سمجھتے ہیں جو اپنے ملک کی آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔

News ID 1913497

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha