مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے آج صبح (ہفتہ 3 دسمبر کو) آئین کے نفاذ کی ذمہ داری کے موضوع پر قومی کانفرنس میں کہا کہ آئین قومی عہد، عظیم الشان اسلامی انقلاب کی تشکیل کا مجسم نمونہ اور جمہوریت، اسلامیت اور جائز آزادیوں کا ضامن ہے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ میں نے افریقہ کا دورہ کیا تھا، اس دوران قانون کے ایک ممتاز پروفیسر نے جن کی منڈیلا سے بہت گہری دوستی تھی، مجھ سے کہا کہ جنوبی افریقہ میں منڈیلا کی حکومت کے بعد مجھے اور چند لوگوں کو آئین مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور ہم نے دنیا کے تمام ملکوں کے آئین کا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ دنیا کا سب سے ترقی یافتہ آئین اسلامی جمہوریہ ایران کا آئین ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمارے آئین میں اسلامیت، جمہوریت، آزادی اور نظام کی خودمختاری جیسے متعین اور ناقابل تغیر اصول ہیں۔
اصل اور بنیاد یہ قانون ہے جبکہ قانون کے نفاذ کے لیے موجود طریقے اور طریقہ کار پر بحث کی جا سکتی ہے۔ طریقہ کار کو ضرورت کے مطابق تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن قدر کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ طریقہ تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن قدر کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ضرورت کے مطابق میکانزم اور طریقوں کی جانچ کی جاسکتی ہے۔
صدر رئیسی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں کوئی تعطل نہیں ہے مزید کہا کہ آئین کی تیاری، تشکیل اور اسے حتمی شکل دینے کا کام اس طرح کیا گیا ہے کہ آپ کو آئین اور اس کے نفاذ اور ملکی معاملات کو چلانے میں کسی تعطل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کی آئین سے واقفیت اور ان کے حقوق سے آگاہی انہیں ان حقوق کا مطالبہ کرنے اور حکام کی طرف سے ان حقوق کی صحیح تکمیل کی نگرانی کرنے کا احساس دلاتی ہے۔
رئیسی نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں آئین میں مطالبات اور جوابدہی کے مسئلے کا ذکر کیا اور کہا کہ ہمارے انتظامی نظام اور دنیا کے دیگر نظاموں میں فرق یہ ہے کہ اسلامی انتظامی نظام میں حکام کو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ، عوام، رجوع کنندگان اور ادارہ جاتی سلسلوں کے سامنے جوابدہ سمجھنا پڑتا ہے۔
ایرانی صدر نے ایران میں عوامی ووٹوں کے ذریعے حکومتوں کی تشکیل کو اسلامی جمہوریہ کے مقدس نظام اور اس کے آئین کے اعزازات میں سے ایک اعزاز قرار دیا اور کہا کہ اس ملک میں انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد کے سالوں کے برابر انتخابات ہوتے رہے ہیں اور ہمارا ملک انتخابات کے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے تاہم حیرت ہے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعویدار ایک ایسے ملک کو اپنی دشمنی، دباو اور پابندیوں کا نشانہ بناتے ہیں اور دوسری طرف انتہائی آمرانہ اور مستبد ترین حکومتوں جو انسانی حقوق کی سب سے کھلی خلاف ورزی کرنے والوں میں سے ہیں، کی حمایت کرتے ہیں۔ دنیا میں ایسی منطق کہاں قابل قبول ہے؟
آپ کا تبصرہ