مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ان خیالات کا اظہار رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ہفتہ کے روز تہران میں حسینیہ امام خمینی (رہ) میں 1982 میں دفاع مقدس کے 370 شہداء کی تدفین کی برسی کے موقع پر صوبہ اصفہان سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد سے ملاقات کے دوران کیا۔
رہبر معظم انقلاب نے سینکڑوں اصفہانیوں سے ملاقات کے دوران کہا کہ اصفہان علم و ایمان اور فن و جہاد کا قابل تعریف شہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دور کا سب سے بڑا چلینج «ٹہراو، جمود و رجعت پسندی» کے مقابلے میں ترقی و پیش رفت ہے۔
رہبر انقلاب نے کہا کہ استکبار ایرانوفوبیا میں اضافے کے ساتھ ایرانی قوم کے خلاف اپنی اصولی مقابلہ آرائیوں میں اپنے تمام امکانات کو بروئے کار لا رہا ہے اور انہیں عوام بالخصوص نوجوانوں کے ذہنوں میں مایوسی پیدا کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ آج "مایوسی پیدا کرنے اور امیدیں مٹانے سے سے پرہیز کرنا" اور "کام، محنت اور امید کے جذبے کو فروغ دینا" ایران دوستی کے ثبوت کی سب سے اہم علامت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصادی مسائل کے حل کے لیے حکام کی مزید کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ فسادات کی ڈوریاں ہلانے والے جو عوام کو میدان میں لانے میں ناکام رہے ہیں، شرارتوں کو جاری رکھ کر حکام کو تھکانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن فسادات کی بساط سمٹ جائے گی اور قوم ان سے ماضی سے بڑھ کر زیادہ نفرت کے ساتھ مزید طاقت اور نئے جذبے کے ساتھ کام، جدوجہد اور ترقی کرتی رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ کے ساتھ استکبار کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ نظام ترقی کرتا ہے اور دنیا میں ابھر کر سامنے آتا ہے تو دنیا میں مغربی لبرل جمہوریت کی منطق باطل ہو جائے گی۔
آیت اللہ خامنہ ای نے لبرل ڈیموکریسی کی منطق کے ساتھ مختلف ممالک پر مغربی دنیا کے تسلط کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ پچھلی تین صدیوں میں آزادی کی کمی یا جمہوریت کے فقدان کے بہانے، انہوں نے ملکوں کے وسائل کو لوٹا اور غریب یورپ بہت سے امیر ممالک کے زمین بوس ہونے کی قیمت پر امیر ہو گیا۔
انہوں نے آزادی اور جمہوریت کے نام پر ملکوں میں آزادی اور جمہوریت کے خلاف کام کرنے کی مغرب کی روش کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا افغانستان اس کی ایک قریبی اور واضح مثال ہے جہاں امریکیوں نے عوامی حکومت نہ ہونے کے بہانے فوجی حملہ کیا تاہم 20 سال لوٹ مار اور جرائم بعد وہی حکومت آئی جس کے خلاف انہوں نے کارروائی کی تھی اور وہ رسوا ہو کر باہر نکل گئے۔
رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ اب ایران میں دین اور حقیقی جمہوریت پر مبنی نظام نے اپنے لوگوں کو شناخت دی ہے اور انہیں زندہ اور حقیقت میں مغربی لبرل جمہوریت کی منطق کو باطل کر دیا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ اندر کے بعض لوگ مغربی پروپیگنڈے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اسلامی نظام میں آزادی اور جمہوریت نہیں ہے جبکہ خود ان باتوں کا اظہار آزادی کی علامت ہے اور ایسی حکومتوں کا برسراقتدار آنا جو سیاسی سوچ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے کوئی میل نہیں رکھتیں، بھی عوام کے انتخاب کے حق اور اسلامی نظام کے عوامی ہونے کی علامت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر اسلامی جمہوریہ امریکہ اور استکبار کے سامنے جھک جاتا اور ان کی دھونس اور جبر کو مان لیتا تو اس پر دباو کا بوجھ کم ہوجاتا لیکن وہ ملک پر غلبہ حاصل کرلیتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان برسوں میں جب بھی اسلامی جمہوریہ کی طاقت و اقتدار کی آواز اونچی ہوئی ہے دشمن نے اسلامی نظام پر حملہ کرنے کی کوششیں بڑھائی ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ آج ہمارے ملک کا بنیادی چیلنج « ترقی و پیشرفت اور ٹہراو، جمود و رجعت پسندی» کے مابین جاری کمکش ہے، کیونکہ ہم ترقی کر رہے ہیں لیکن استکباری طاقتیں اسلامی ایران کی ترقی سے پریشان اور تشویش میں مبتلا ہیں اور للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی بے چینی اور غصے کی وجہ سے امریکی اور یورپی تمام امکانات کے ساتھ میدان میں اترتے ہوئے ہیں لیکن وہ کچھ نہیں بگاڑ سکتے جیسا کہ نہ پہلے کر سکے ہیں اور نہ آئندہ کر سکیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران اور استکبار کی بنیادی مہم میں امریکہ سب سے آگے ہے اور یورپ امریکہ کے پیچھے کھڑا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد کے سالوں کے دوران، تمام امریکی صدور بشمول ڈیموکریٹ کارٹر، کلنٹن، اور اوباما اور ریگن، بش اور اس سابقہ ریپبلکن سبک مغز سے لے کر موجودہ بے ہوش و حواس صدر تک کہ جو ایرانی عوام کو بچانا چاہتا ہے، ہر کوئی اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کھڑا ہوا اور ہر ایک سے مدد طلب کی، جن میں اس کے پالتو پاگل کتے کے طور پر صیہونی حکومت اور خطے کے کچھ ممالک بھی شامل ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ ان تمام کوششوں کے باوجود قوم کے دشمن مجموعی طور پر ناکام ہوئے۔ یقیناً انہوں نے پابندیاں، ایٹمی سائنسدانوں کا قتل، مختلف سیاسی اور سیکورٹی حربے استعمال کرنے اور اسلامی نظام کے خلاف بولنے کے لیے اندر کے کچھ لوگوں کو وعدے دینے جیسے مسائل پیدا کیے ہیں لیکن وہ ایرانی قوم کی حرکت کو نہ روک سکے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے یہ سوال پیش کرتے ہوئے کہ ہم ترقی کیسے کر سکتے ہیں؟ مزید کہا کہ ترقی اور پیش رفت کے لیے بہت سے اوزاروں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ترقی کا سب سے اہم ذریعہ امید ہے، اس لیے دشمن اپنی پوری طاقت کے ساتھ مایوسی اور ناامیدی پیدا کرنے پر مرکوز ہے۔
انہوں نے مقدس دفاع کے آٹھ سالوں کی طرف اشارہ کیا (عراق نے 1980-1988 میں ایران کے خلاف جنگ مسلط کی) اور کہا کہ ملک کے نوجوانوں نے میدان جنگ میں ایک کارنامہ تخلیق کیا اور سابق آمر صدام حسین کے تحت عراق کی بعثی حکومت کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی نظام اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ فسادیوں کی شرارتیں اسے نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ فسادات کا خاتمہ قریب ہے اور عدالتی حکام سے مطالبہ کیا کہ فسادات کے پیچھے بڑے عناصر کے خلاف ان کے جرائم کے مطابق مقدمہ چلایا جائے اور سزا دی جائے جو انہوں نے لوگوں کی املاک کو جلانے اور معصوم لوگوں کے ساتھ ساتھ سیکورٹی فورسز کو شہید کرنے میں کیے ہیں۔
آپ کا تبصرہ