مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہید جنرل قاسم سلیمانی کے اہل خانہ نے صدارتی دفتر میں صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی سے ملاقات اور گفتگو کی۔
صدر رئیسی نے ملاقات کے دوران شہادت کی ثقافت اور عظیم قربانی کو اسلامی جمہوریہ کی طاقت کا سب سے اہم عنصر قرار دیا اور کہا کہ شہداء کی یاد، نام اور اعلیٰ مقام کی حفاظت ہر منصف ایرانی بالخصوص حکام کا فرض ہے۔
انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی طاقت کو شہداء بالخصوص حاج قاسم سلیمانی جیسے شہداء کے خون سے ماخوذ قرار دیا اور کہا کہ بعض لوگ صرف فوجی ساز و سامان اور ہتھیاروں کو قومی طاقت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں، آج اسلامی جمہوریہ دفاعی صنعت میں ناقابل کتمان پیش رفت کے ساتھ ساتھ ایک ایسی سافٹ پاور کا مالک بھی ہے جو لاکھوں شہداء کے خون کی بدولت حاصل کی گئی ہے اور کسی بھی ہتھیار سے کہیں زیادہ موثر ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حقیقت پر مبنی رپورٹنگ اور مغربی میڈیا ایمپائر کے مغرضانہ رویے سے مقابلے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سرزمین کے دشمن میڈیا کے سہارے حقیقت کو الٹا دکھانا اور جلاد اور شہید کی جگہ کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی بنیاد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں میری تقریر کی تیاری کے دوران قومی طاقت کی علامتوں کی تعظیم اور ان کو دنیا والوں کے سامنے پیش کرنے کو مد نظر رکھا گیا اور ہم نے شہید سلیمانی کو متعارف کرانے کا فیصلہ کیا تا کہ دنیا کو معلوم ہو کہ دہشت گردی کیا ہے، دہشت گرد کون ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہیرو کون تھا؟
حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور جھوٹی باتیں گھڑنے میں مغربی میڈیا کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے صدر رئیسی نے کہا کہ آج تسلط پسند نظام اپنے میڈیا ایمپائر کے سہارے دہشت گردی کی تعریف کو تبدیل کرنے اور خود کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ہیرو کے طور پر متعارف کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہٰذا یہ ہم پر بھاری فرض ہے کہ دشمن کی اس کوشش کو کامیاب نہ ہونے دیں۔
صدر رئیسی نے حق کی حفاظت اور ایران کے دشمنوں کی طرف سے مغرضانہ بیانیوں کی تشکیل کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں حکام کی ذمہ داری پر توجہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے دورے کے دوران مختلف تقاریر اور ملاقاتوں میں اس بات پر تاکید کی کہ یورپی ممالک اور امریکہ آج ان منافقین کو پاک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کے ہاتھ 17 ہزار سے زائد بے گناہ ایرانی ہم وطنوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جبکہ انہیں پہلے دہشت گرد گروہوں کی بلیک لسٹ میں شامل کیا ہوا تھا اور آج انہیں اس سے لسٹ نکال کر ان کی حمایت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج شہید سلیمانی اسلامی نظام کی علامتوں میں سے ایک بن چکے ہیں اور اسی وجہ سے اسلامی جمہوریہ کے بغض و کینہ کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید سلیمانی جیسا کہ رہبر معظم نے تاکید کی ہے صرف ایک نام نہیں بلکہ ایک مکتب ہیں اور آج ہم سب کو اس مکتب کے مظاہر اور امتیازی خصوصیات کو لوگوں کی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
انہوں نے شہید سلیمانی کے حوالے سے معاشرے کی حساسیت کو کم کرنے کے لیے دشمنوں کی کوششوں کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ دشمن مختلف اوقات میں کوشش کررہا ہے کہ معاشرے کے لئے نمونہ عمل شہید سلیمانی اور اس کے دیگر نمونوں اور اقدار کے حوالے سے اس کی حساسیت کا اندازہ لگایا جائے اور اگر اسے یہ احساس ہوجائے کہ اس شہید کے نام اور اس کی یاد کے حوالے سے معاشرے کا حساسیت اور جذبہ کم ہو گیا ہے تو اس کے نام، راستے اور مکتب کو معاشرے کی اجتماعی یادداشت سے مکمل طور پر مٹانے کی کوششیں دوگنی کر دے گا۔ اس لیے شہید سلیمانی کی شخصیت اور مکتب پر دشمن کے کسی بھی تجاوز کے بارے میں حساس رہنا ہوگا۔
اس ملاقات کے آغاز میں شہید سلیمانی کے اہل خانہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صدر کے بیانات کو سراہتے ہوئے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر جنرل سلیمانی کے نام کے ذکر کو خطے میں اسلامی انقلاب سے دلچسپی رکھنے والوں کی خوشی کا باعث قرار دیا۔
جنرل شہید سلیمانی کے اہل خانہ نے اقوام متحدہ میں تقریر کے دوران صدر کے حق طلبانہ موقف کو سراہا اور اس تقریر میں قربانی اور شہادت کی ثقافت کی تجلیل کے لئے آیت اللہ رئیسی کے اقدام کی تعریف کی۔
مقاومت کے قابل فخر رہنما کے بچوں نے مکتب شہید حاج قاسم سلیمانی کی طرف عالمی رائے عامہ کی توجہ مبذول کروانے کو اقوام متحدہ میں صدر کے خطاب کے اہم ترین کار ناموں میں سے ایک قرار دیا اور کہا کہ آج دنیا کسی بھی وقت زیادہ شہدا کی تعلیمات کی پیاسی ہے، اس بنا پر اقوام متحدہ میں صدر کے قابل قدر اقدام نے ایرانی قوم اور خطے میں مقاومت کے محور میں دلچسپی رکھنے والے تمام افراد کو خوش کیا۔
شہید سلیمانی کے اہل خانہ نے نیویارک میں اپنی تقریر کے دوران شہید سلیمانی کے مکتب کی امتیازی خصوصیات بیان کرنے پر صدر کے اس اقدام کو ایک دانشمندانہ اقدام قرار دیا اور مزید کہا کہ ایک ایسی جگہ پر جو قوموں کے حقوق کی پاسداری میں اپنے کام اور اصلی تشخص سے بہت دور چلی گئی ہے، مکتب شہید سلیمانی کی خصوصیات کی وضاحت جو کہ انصاف پسندی اور حق طلبی سے عبارت ہے، بہت ہی زیادہ موثر اور بالکل وہی تھا جس کی اسلامی ایران کے مکتبی صدر سے توقع تھی۔
آپ کا تبصرہ