مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے معروف عالمِ دین اور امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے محرم الحرام ۱۴۴۴ ھ میں بعنوان "بعثت سے ظہور تک" سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اہل بیت علیہم السلام اللہ تعالی کی جانب سے ہمارے لئے بہترین نعمت ہیں۔ ان کے مرتبہ کے مقابلہ میں سارا عالم بے حیثیت و بے وقعت ہے اور ان برگزیدہ ہستیوں میں سے کسی ایک کا انکار سب کے انکار کے برابر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ، جناب زہرا سلام علیہا، امیر المومنین علی علیہ السلام سے لے کر آخری حجتِ خدا تک تمام معصومینؑ ایک دوسرے سے متصل ہیں اور ایک ہی حقیقت کے مختلف چہرے ہیں۔ ان کا مقام، اہداف، علم و خصوصیات یکساں ہیں، دوئیت و دوگانگی کو ڈھونڈ کر بھی ان میں تلاش نہیں کا جاسکتا۔ اہل بیت کے مقام کا تعین من جانب اللہ ہے، اس میں کسی فرد کی ذاتی پسند و ناپسند کا کا عمل دخل نہیں۔ ہم اہل بیتؑ کو اللہ کے حکم کی وجہ سے اپنے لئے حجت اور نمونہ عمل قرار دیتے ہیں۔ قرآن کریم بھی اہل بیت علیہم السلام کا مدح ثنا ہے۔ اس کی آیات ان ہستیوں کو اپنا محور تسلیم کرتے ہوئے ان کی حیثیت کو بیان کرتی ہیں۔ قرآن نے چہاردہ معصومین علیہم السلام کو تمام فرائض، احکامات و عبادات کی روح قرار دیا ہے۔
انہوں نے اہل بیتؑ کی محور و مرکزیت اور ان کی حیثیت کے بیان کرنے کو بعثت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے اہلِ منبر کو چاہیے کہ اہل بیتؑ کے مقام و مرتبہ کو بار بار بیان کریں۔ ابلیسی افکار و عقائد کی یلغار کے مقابلہ میں نوجوان نسل کو اس طرح سے تیار کیا جائے کہ وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے عقائد کا بھرپور طریقہ سے دفاع کر سکے۔ اس کام کی انجام دہی کے لئے عزاداری سید الشہداء کے ایام موزوں ترین ہیں۔
قرآن کریم کی آیت تبلیغ (سورہ مائدہ آیت ۶۷) کا حوالہ دیتے ہوئے علامہ امین شہیدی نے کہا کہ اس آیت میں رسول خداؐ کے منصب کے ساتھ اُس اہم ذمہ داری کو بیان کیا گیا ہے کہ جس سے غفلت برتنے کے نتیجہ میں رسول خداؐ کی تئیس سالہ تبلیغی کوششوں کے ضائع ہو جانے کا خدشہ تھا۔ باالفاظ دیگر یہ آیت اس چیز کو بیان کرتی ہے جس پر پورے نظامِ کائنات کی حفاظت کا دارومدار ہے۔ یہ آیت مکتب اہل بیتؑ کے پیروکاروں کے موقف کو درست ثابت کرنے کے لئے مضبوط ترین دلیل ہے جس کے تحت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ اپنا جانشین منتخب کرنے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ ہمارے مکتب میں اس موضوع کے حوالہ سے ابہام موجود نہیں ہے۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ جس طرح نبی کے انتخاب کا حق عوام الناس کو نہیں ہے، اسی طرح اس کے جانشین کے چناؤ کا حق بھی عوام نہیں رکھتی۔ یہ انتخاب بھی من جانب اللہ ہوتا ہے! اگرچہ تاریخ میں نبی کے حقِ انتخاب سے انکار کرنے والے خود اپنے جانشینوں کو منتخب کرتے رہے۔ اسی طرح آیت اولی الامر (سورہ مائدہ آیت ۵۹) منصبِ خلافت کی اہلیت کو بیان کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ جانشین رسولؐ کو ان ہی کی طرح عادل، حکیم اور شجاع ہونا چاہیے اور ان خصوصیات کا حامل شخص ہی قابلِ اطاعت ہے اور اس کی اطاعت اسی طرح واجب ہے جس طرح رسول اللہ کی اطاعت بلا چون و چراں کی جاتی ہے۔ لہذا از خود خلیفہ نامزد کرنے والوں کی حمایت اور امام علی علیہ السلام کی جانشینِ رسولؐ ہونے کی مخالفت محض دوگانگی ہے۔
آپ کا تبصرہ