23 ستمبر، 2015، 12:51 PM

رہبر معظم کا حجاج بیت اللہ الحرام کے نام اہم پیغام

رہبر معظم کا حجاج بیت اللہ الحرام کے نام اہم پیغام

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حج کی عظیم عبادت کی مناسبت سے اپنے پیغام میں " خطے میں امت مسلمہ کو عظیم مشکلات میں مبتلا کرنے کی استکبار کی شرانگیز سیاست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سامراجی طاقتوں کی طرف سےخطے میں امت مسلمہ کو عظیم مشکلات کا سامنا ہے مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا پہلا مسئلہ ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے دفتر رہبر معظم کی سائٹ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حج کی عظیم عبادت کی مناسبت سے اپنے پیغام میں " خطے میں امت مسلمہ کو عظیم مشکلات میں مبتلا کرنے کی استکبار کی شرانگیز سیاست" اور " غاصب صیہونی حکومت کے جرائم اور مسجد الاقصی کے حریم کی ایک بار پھر توہین" کو تمام مسلمانوں کے لئے اولین مسئلہ قرار دیا اور عالم اسلام کے علما اور دانشمندوں کو ان حادثات کے مقابلے میں اپنی رسالت کا حق ادا کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ حج کا عظیم اجتماع، اس تاریخی فریضے کے تبادل اور ظہور کی عظیم جگہ اور " برائت کا موقع" ایک واضح اور روشن سیاسی فریضہ ہے کہ جسے غنیمت سمجھنا چاہئے۔
آپ نے مسجد الحرام میں ہونے والے حادثے کے نتیجے میں حاجیوں کے جانی ضیاع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اور مہمانان خدا کی حفاظت کی بھاری ذمہ داری کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس عہد پر عمل کرنا اور اس ذمہ داری کو نبھانا، ہمارا حتمی مطالبہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن آج صبح نمائندہ ولی فقیہ اور ایرانی زائرین کے سرپرست حجت الاسلام والمسلمین قاضی عسکر نے صحرائے عرفات میں پڑھ کر سنایا، جو مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللّه الرحمن الرحیم
والحمد لله رب العالمین و الصلاة و السلام علی سیّد الخلق اجمعین محمد و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین و علی التابعین لهم باحسان الی یوم الدین
اور سلام ہو یکتا پرستی کے مرکز، مومنین کی طواف گاہ اور فرشتوں کی جائے نزول  کعبہ شریف پر۔ اور سلام ہو مسجد الحرام، عرفات، مشعر اور منی پر اور سلام ہو خضوع و خشوع سے مملو دلوں پر، محو ذکر زبانوں پر، بصیرت کے ساتھ کھلنے والی آنکھوں پر، عبرت و سبق کا راستہ پا جانے والے افکار پر اور سلام ہو آپ خوش نصیب حاجیوں پر کہ آپ کو دعوت الہی پر لبیک کہنے کی توفیق نصیب ہوئی اور آپ نعمتوں کے دسترخوان پر تشریف فرما ہیں۔
سب سے پہلی ذمہ داری اس عالمی، تاریخی اور دائمی لبیک پر غور و خوض ہے؛ انّ الحمد و النعمة لک و المُلک، لا شَریک لک لبیک۔ ساری تعریفیں اور شکر اس کے لئے ہے، ساری نعمتیں اسی کی طرف سے اور ملک و اقتدار اسی کا ہے۔ حاجی کو یہ زاویہ نگاہ، اس پرمغز و بامعنی فریضے کے شروعاتی مرحلے میں ہی، دے دیا جاتا ہے اور اعمال حج کا سلسلہ اسی طرز نگاہ کے مطابق انجام پاتا ہے اور پھر اسے پائیدار سبق اور کبھی فراموش نہ ہونے والے درس کی مانند اس کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے اور زندگی کے لائحہ عمل کو اسی تناظر میں منظم کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ یہ عظیم سبق حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا، وہی پربرکت سرچشمہ ہے جو مسلمانوں کی زندگی کو تازگی، حرارت اور نمو عطا کر سکتا ہے اور انھیں ان مسائل سے جن سے وہ دوچار ہیں، اس دور میں اور تمام ادوار میں نجات دلا سکتا ہے۔ نفسانیت، کبر، نفسانی خواہشات، تسلط پسندی اور تسلط برداشت کرنے کی عادت، عالمی استکبار، تساہلی اور ذمہ داریوں سے فرار اور با عزت انسانی زندگی کو ذلیل و خوار کرنے کا جذبہ، یہ سب وہ  بت ہیں جو دل کی گہرائیوں سے نکل کے زندگی کا دستور العمل بن جانے والی اس 'صدائے ابراہیمی' سے ٹوٹ جائیں گے اور دوسروں پر انحصار، دشواریوں اور سختیوں کی جگہ آزادی و وقار اور سلامتی لے لیگی۔  
حج سے مشرف ہونے والے برادران و خواہران (گرامی)، بلا تفریق ملک و قوم، سب اس حکمت آمیز کلام پروردگار پر غور کریں اور دنیائے اسلام اور خاص طور پر مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کے مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے، ذاتی اور گرد و پیش کے وسائل اور توانائیوں کے مطابق اپنے لئے فریضہ اور ذمہ داری طے کریں اور اس کے تحت کوششیں انجام دیں۔
آج اس علاقے میں ایک طرف امریکا کی شرانگیز پالیسیاں جو جنگ و خونریزی، تباہی و آوارہ وطنی، نیز غربت و پسمانگی اور  قومیتی و فرقہ وارانہ تنازعات کی جڑ ہیں، اور دوسری طرف  صیہونی حکومت کے جرائم ہیں، جس نے مملکت فلسطین میں غاصبانہ اقدامات کو شقی القلبی اور خباثت کی انتہا تک پہنچا دیا ہے اور بار بار مقدس مسجد الاقصی کی توہین اور مظلوم فلسطینیوں کے جان و مال کی تاراجی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ یہ آپ تمام مسلمانوں کا اولین مسئلہ ہے، جس کے بارے میں آپ کو غور کرنا چاہئے اور اس مسئلے میں اپنے اسلامی فرائض کو سمجھنا چاہئے۔ علمائے دین اور سیاسی و علمی شخصیات کی ذمہ داری زیادہ سنگین