مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہابیلیان ایسوسی ایشن نے یوم اطفال کے موقع پر "بچے جنگ اور دہشت گردی کا شکار" کے عنوان سے ایک اہم بین الاقوامی نشست منعقد کی، جس میں پاکستان، فرانس، ایران، امریکہ اور یوروگوائے سے ماہرین اور محققین نے شرکت کی۔ مقررین نے جنگوں اور دہشت گردی کے دوران بچوں پر ہونے والے مظالم، عالمی اداروں کی بے حسی اور دوہرے معیار پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
شرکاء نے کہا کہ موجودہ عالمی حالات میں بچے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ انہیں جسمانی نقصان، ذہنی صدمات، تعلیمی محرومی اور سماجی تباہی جیسے مسائل کا سامنا ہے جبکہ عالمی برادری کی جانب سے مؤثر ردعمل کا فقدان صورتحال کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔
نشست کا آغاز پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کے ماہر سید قندیل عباس کے خطاب سے ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ 2003ء سے اب تک پاکستان میں 9 ہزار سے زائد بچے دہشت گردی کی وجہ سے جاں بحق یا زخمی ہوچکے ہیں جبکہ 1,500 اسکول تباہ ہوئے۔ دہشت گردی کے عروج کے دوران آرمی پبلک اسکول کے سانحے میں 132 بچے شہید ہوئے، جو پاکستان کی تاریخ کا دل خراش ترین واقعہ ہے۔
قندیل عباس نے مزید بتایا کہ دہشت زدہ علاقوں میں اسکول جانے والے بچوں میں 22 سے 34 فیصد کمی آئی، 70 فیصد بچے PTSD کا شکار ہوئے اور چائلڈ لیبر میں 20 سے 30 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف کسی بھی حکمتِ عملی میں نفسیاتی معاونت اور تعلیمی بحالی کو لازمی شامل ہونا چاہیے۔
فرانسیسی-لبنانی ماہرِ نفسیات ویولٹ داگر نے غزہ کے بچوں کی حالت کو ’’سادہ PTSD‘‘ نہیں بلکہ گہرے، پیچیدہ اور بین النسلی ٹراما قرار دیا۔ مسلسل بمباری، گھرانوں کی تباہی، بار بار کی بے دخلی، اور محفوظ ماحول کا خاتمہ جیسے مسائل بچوں کو مستقل خوف اور اضطراب میں مبتلا کر رہے ہیں۔
انہوں نے لاپتہ فلسطینی بچوں سے متعلق اعضاء کی غیر قانونی تجارت اور جنسی استحصال کی رپورٹس کو شدید تشویش ناک قرار دیا۔
ایرانی محقق سید رضا غزوی نے بتایا کہ گزشتہ 40 برسوں میں دہشت گردی کے واقعات میں دو ہزار ایرانی بچے شہید ہوئے۔ انہوں نے 1980ء کی دہائی کے حملوں، حالیہ کرمان دھماکوں اور ایران پر صہیونی جارحیت کے دوران بچوں کی شہادتوں کا تفصیلی حوالہ دیا۔
انہوں نے منافقین (MEK) کی جانب سے بچوں کو والدین سے جدا کرنے، ذہنی دباؤ اور نفسیاتی تشدد کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اداروں نے ایرانی بچوں کے مسائل کو مسلسل نظرانداز کیا، جو کھلا تضاد ہے۔
امریکی مصنف اور انسانی حقوق کے کارکن رابرٹ فنٹینا نے بتایا کہ مختلف بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق غزہ میں 20,000 سے زیادہ بچے قتل ہوچکے ہیں، جب کہ ہزاروں زخمی یا معذور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین اور فلسطین کے پناہ گزینوں کے معاملے میں عالمی برادری، خصوصاً کینیڈا نے واضح دوہرا معیار اختیار کیا ہے، جو انسانی اصولوں کے منافی ہے۔
یوروگوائے سے انسانی حقوق کی کارکن ہیبا اسمتھ نے بتایا کہ غزہ کے بچوں کو ڈپریشن، ذہنی زوال، غذائی قلت سے دماغی کمزوری، اور خودکشی جیسی فکری کیفیت
کا سامنا ہے۔
نشست کے اختتام پر ہابیلیان ایسوسی ایشن نے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد عالمی سطح پر ماہرین کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرنا تھا تاکہ جنگوں اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بچوں کے ابتر حالات کی طرف عالمی برادری کی توجہ مبذول کی جائے۔
آپ کا تبصرہ