مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تہران ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر 12 روزہ جارحیت کے دوران جرمن فوجی براہِ راست جنگی کارروائیوں میں شریک رہے۔ جرمنی ان چند ممالک میں شامل تھا جنہوں نے ایران کے شہری، جوہری اور عسکری مقامات پر جون میں اسرائیلی حملوں کی کھل کر حمایت کی اور ایران کے خلاف سب سے زیادہ آواز بلند کرنے والا ملک بھی یہی تھا۔
اس دوران جرمن چانسلر نے اسرائیلی اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل مغربی ممالک کے لیے گندے کام انجام دے رہا ہے، جس پر ایرانی عوام کے ساتھ ساتھ خود جرمن شہریوں نے بھی شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ جرمن سیاستدان فریڈرش مرز نے اعتراف کیا کہ انہیں ان غیر قانونی حملوں کی پیشگی اطلاع دی گئی تھی۔
اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے نے پورے خطے کو تباہ کن تصادم کے دہانے پر پہنچا دیا، جس کے اثرات مغربی دنیا تک پہنچ سکتے تھے۔ جرمنی اس خطرے سے بخوبی آگاہ تھا جب اس نے اسرائیل کی حمایت کی۔
تہران ٹائمز کے مطابق جرمنی کی حمایت صرف سفارتی بیانات تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس نے اسرائیل کے جنگی اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فوجی مدد فراہم کی اور اپنے فوجی اہلکار مقبوضہ علاقوں میں تعینات کیے۔
ایک اسرائیلی فوجی اہلکار نے ایرانی انٹیلیجنس کو بتایا کہ اسرائیلی حکومت کی درخواست پر جرمن فوجی اسرائیل میں تعینات کیے گئے تھے اور انہوں نے 12 روزہ جنگ کے دوران عسکری کارروائیوں میں حصہ لیا۔ یہ تعیناتی ایک خفیہ معاہدے کے تحت ہوئی، جس میں جرمنی کی شمولیت کو راز میں رکھنے کی شرط کی گئی تھی۔ یہ معاہدہ جرمن اور اسرائیلی کمانڈرز کے درمیان خفیہ طور پر طے پایا، تاہم ایرانی حکام نے اس کی تفصیلات حاصل کرلی ہیں۔
ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت میں جرمنی کی شمولیت تاریخ میں دوسرا موقع ہے جب برلن نے کسی جارح ملک کا ساتھ دیا۔ اس سے قبل 1980 کی دہائی میں جرمنی نے عراقی آمر صدام حسین کو کیمیائی ہتھیار فراہم کیے تھے، جنہیں اس نے ایران کے خلاف جنگ میں استعمال کیا۔
تہران ٹائمز کے مطابق، اسرائیل کی 12 روزہ جنگ کے دوران جرمن فوجیوں کو اسرائیل کی خدمت کے بدلے مالی معاوضہ دیا گیا۔ تاہم جنگ کے اختتام پر وہ فوری طور پر مقبوضہ علاقوں سے نکل گئے، حالانکہ ابتدائی طور پر انہوں نے طویل قیام کا وعدہ کیا تھا۔ جیسے جیسے جنگ شدت اختیار کرتی گئی اور ایران نے اسرائیل کے حساس اور عسکری مقامات کو نشانہ بنایا، جرمن فوجی مزید شمولیت سے گریز کرنے لگے۔
اسرائیلی ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق جرمن فوجیوں کی واپسی نے اسرائیلی حکومت کو پریشان کردیا۔ تاہم صہیونی حکام فرانس کی شمولیت سے مطمئن دکھائی دیے، کیونکہ فرانس نے اسرائیل کی جانب سے جنگ میں بھرپور کردار ادا کیا۔
یہ واضح نہیں کہ جرمن پارلیمنٹ نے اس تعیناتی کی منظوری دی تھی یا نہیں۔ جرمن آئین کے مطابق حکومت کسی غیر ملکی جنگ میں از خود فوجی بھیجنے کی مجاز نہیں، اور اس کے لیے پہلے پارلیمنٹ سے اکثریتی منظوری لینا لازمی ہے۔ یہ قانون دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس لیے بنایا گیا تاکہ حکومت یکطرفہ طور پر جنگی فیصلے نہ کرسکے۔
تہران ٹائمز کو ملنے والی معلومات کے مطابق جرمن فوجیوں کے نام، تعاون کی نوعیت اور دیگر دستاویزی شواہد ایران کو فراہم کر دیے گئے ہیں۔
یہ انکشاف ایسے وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیل اندرونی طور پر جاسوسی بحران سے دوچار ہے۔ اسرائیلی داخلی سلامتی ادارے شِین بٹ کے مطابق 2024 میں اسرائیل میں جاسوسی کے کیسز میں 400 فیصد اضافہ ہوا، اور 2025 کے ابتدائی چھ ماہ میں یہ شرح مزید بڑھ گئی ہے۔ حالیہ مہینوں میں کئی اسرائیلی شہری جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیے گئے ہیں، جن میں سے اکثر کو ایران سے جوڑا جا رہا ہے۔
ایران کے وزیر انٹیلیجنس اسماعیل خطیب نے کہا ہے کہ بڑی تعداد میں اسرائیلی شہری یا تو مالی مفاد کے لیے یا وزیر اعظم نیتن یاہو سے نفرت کے باعث ایران سے تعاون کرتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ