مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: سید حسن نصراللہ، جنہیں سید مقاومت کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، لبنان کی معروف سیاسی و مزاحمتی جماعت حزب اللہ کے تیسرے اور طویل ترین مدت تک رہنے والے سربراہ تھے۔ انہوں نے 1992 سے 2024 تک قیادت کی، اور اس دوران حزب اللہ کو ایک علاقائی طاقت میں تبدیل کر دیا۔ ان کی قیادت میں جنوبی لبنان کو 2000 میں اسرائیلی قبضے سے آزاد کرایا گیا، 2004 میں لبنانی قیدیوں کی رہائی اور شہداء کی باقیات کی واپسی ممکن ہوئی، اور 2006 کی 33 روزہ جنگ میں اسرائیل کو شکست دی گئی۔
سید حسن نصراللہ 31 اگست 1960 کو مشرقی بیروت کے ایک محلے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی دینی تعلیم لبنان میں حاصل کی، پھر نجف گئے، جہاں بعثی حکومت کے دباؤ کے بعد وطن واپس آئے۔ بعد ازاں ایران گئے اور قم میں امام خمینیؒ کے انقلابی افکار سے متاثر ہوئے۔ اسی دوران فارسی زبان سیکھی اور امام خمینیؒ کے نمائندہ کی حیثیت سے لبنان میں خدمات انجام دیں۔
سیاسی جدوجہد اور حزب اللہ قیادت
ان کی سیاسی جدوجہد کا آغاز 1975 میں شیعہ تنظیم "حرکت اَمَل" سے ہوا، لیکن 1982 میں چند انقلابی علماء کے ساتھ الگ ہو کر حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔ لبنان میں شیعہ قوت کے ابھار کا آغاز امام موسی صدر کے اقدامات سے ہوا، جسے سید نصراللہ اور ان کے ساتھیوں نے حزب اللہ کے قیام سے مزید مضبوط کیا۔
1992 میں سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد سید حسن نصراللہ کو حزب اللہ کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ اپنی قیادت کے دوران انہوں نے مزاحمتی محور کے رہنماؤں سے قریبی روابط قائم کیے اور خطے میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک مؤثر مزاحمتی قوت کی قیادت کی۔
سید حسن نصراللہ کی جدوجہد، قیادت اور قربانیوں نے انہیں عرب دنیا کا مقبول ترین اور بااثر ترین مزاحمتی رہنما بنا دیا، جنہیں تاریخ ہمیشہ ایک ناقابل فراموش کردار کے طور پر یاد رکھے گی۔
اسرائیلی قبضے کے خلاف جدوجہد
سید حسن نصراللہ لبنان کی معروف شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔ انہیں سید مقاومت کا لقب اس وقت ملا جب انہوں نے 2000 میں اسرائیل کے 22 سالہ قبضے کے بعد جنوبی لبنان کو آزاد کرایا، اور 2006 کی 33 روزہ جنگ میں کامیابی حاصل کی۔ اسرائیل کے خلاف مسلسل مزاحمت اور کامیابیوں کی وجہ سے مغربی میڈیا اور صہیونی تجزیہ کاروں نے انہیں عرب دنیا کا سب سے مقبول، باہمت اور طاقتور رہنما قرار دیا۔
سید حسن نصراللہ خود کو ہمیشہ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے پیروکار اور سپاہی سمجھتے تھے۔ نومبر 2009 میں انہوں نے حزب اللہ کی نئی سیاسی دستاویز پیش کی اور واضح کیا کہ ایران میں ولایت فقیہ سے وابستگی حزب اللہ کی بنیادی پالیسیوں میں شامل ہے۔
ان کی سوانح حیات کے مطابق، آیت اللہ خامنہ ای سے ان کا قریبی تعلق 1986 سے شروع ہوا۔ وہ کئی بار ایران کی عسکری اور سیاسی شخصیات جیسے شہید قاسم سلیمانی اور شہید حسین امیرعبداللهیان سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ ان شہداء نے مزاحمتی محور کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا—چاہے وہ فلسطینی عوام کی حمایت ہو یا شام میں داعش اور تکفیری گروہوں کے خلاف جنگ، جہاں حزب اللہ نے مزاحمتی افواج کے شانہ بشانہ لڑائی کی۔
سید حسن نصراللہ نے حزب اللہ کو اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک مضبوط دیوار اور خطے میں طاقت کا توازن قائم رکھنے والا ستون بنا دیا، اور یوں وہ صہیونی حکومت کے خار چشم بن گئے۔
شہادت اور آسمانوں کی طرف پرواز
حزب اللہ لبنان غزہ کی مزاحمت کی حمایت میں میدان جنگ میں اتری اور صہیونی حکومت کے لئے شمالی سرحدوں پر سخت مشکلات ایجاد کیں۔ غاصب نتن یاہو نے حزب اللہ کی اعلی قیادت کو نشانہ بنانے کا خصوصی حکم جاری کیا اس طرح 27 ستمبر 2024 کو صہیونی جنگی طیاروں نے بیروت کے جنوبی علاقے ضاحیہ پر فضائی حملہ کرکے سید حسن نصراللہ کو شہید کر دیا۔
صہیونی ذرائع ابلاغ نے اعتراف کیا کہ اس حملے میں سید مزاحمت کو نشانہ بنانے کے لیے 80 ٹن وزنی بم استعمال کیے گئے۔ لبنانی حکومت اور فوج حسب روایت اس کھلی جارحیت پر خاموش رہیں۔
سید حسن نصراللہ کا جسد خاکی م عظیم الشان انداز میں تشییع جنازہ کے بعد دفن کیا گیا، جس میں لاکھوں افراد اور دنیا کے 79 ممالک کے نمائندے شریک ہوئے۔ ان کی شہادت نے نہ صرف لبنان بلکہ پورے عالم اسلام کو سوگوار کردیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے تعزیتی پیغام میں شہید سید نصراللہ کو مجاہد کبیر اور مزاحمت کا پیشرو رہنما قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا پاکیزہ جسم سرزمین جہاد میں دفن ہوا، لیکن ان کی روح اور راستہ ہر دن پہلے سے زیادہ روشن ہوگا۔ دشمن جان لے کہ ظلم، غصب اور استکبار کے خلاف مزاحمت کبھی ختم نہیں ہوگی اور منزل مقصود پر پہنچنے تک جاری رہے گی۔
آج سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی پر ان کا نام نہ صرف لبنان بلکہ پورے عالم اسلام میں زندہ ہے۔ وہ ظلم کے خلاف استقامت کی علامت، مقاومت کے ترجمان اور عزت کے علم بردار تھے، جنہوں نے اپنے خون سے خطے کی سیاست کا نقشہ بدل دیا۔ ان کی شہادت اختتام نہیں، بلکہ مزاحمت کے ایک نئے باب کا آغاز ہے، جس کے آثار امت مسلمہ کے لیے رہنما اصول کی صورت میں باقی رہیں گے۔
آپ کا تبصرہ