مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: 7 اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ، مغربی کنارے اور قدس میں صہیونی فورسز کے ہاتھوں 246 صحافی اور میڈیا فعال کارکن شہید ہوچکے ہیں۔ خان یونس شہر کے ناصر میڈیکل کمپلیکس کے ایمرجنسی بلاک پر اسرائیلی فضائی حملہ صحافیوں کے خلاف اس جعلی حکومت کا تازہ ترین جرم ہے۔ اس حملے میں 5 صحافی شہید ہوئے۔ یہ صحافی ہسپتال کے پہلے مرحلے کی بمباری کو رپورٹ کر رہے تھے جب وہ قابضوں کے نشانے پر آ گئے۔
اسی سلسلے میں مہر نیوز نے یمنی معروف صحافی عثمان الحکیمی سے گفتگو کی، جس کا مکمل متن ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
مہر نیوز: جیسا کہ آپ جانتے ہیں، نہ صرف غزہ بلکہ جہاں جہاں صحافی حق کی آواز بلند کریں، قابض صہیونی انہیں نشانہ بناتے ہیں؛ ایران کے خلاف 12 روزہ جارحانہ جنگ میں بھی ایرانی قومی نشریاتی ادارے کی عمارت پر بمباری کی گئی، جس سے 3 صحافی شہید ہوئے اور دیگر میڈیا کارکنان ایران کے مختلف صوبوں میں اسرائیلی حملوں میں شہید ہوئے۔ حالیہ دنوں میں بھی 5 صحافی غزہ میں ناصر ہسپتال کے پہلے بمباری کے منظر کو رپورٹ کرتے ہوئے شہید ہوئے اور غزہ میں صحافیوں کے شہداء کی تعداد طوفان الاقصی کے آغاز سے 246 تک پہنچ گئی۔ بین الاقوامی میڈیا کارکن کی حیثیت سے آپ کے خیال میں اسرائیل غزہ میں صحافیوں کو کیوں نشانہ بنا رہا ہے؟
عثمان الحکیمی: اسرائیل بار بار صحافیوں کو نشانہ بناتا ہے کیونکہ انہیں اپنے لیے براہ راست خطرہ سمجھتا ہے۔ صحافی سچائی کی آواز ہیں اور غزہ کے شہریوں کے دکھ درد کی عکاسی کرتے ہیں۔ لہٰذا صحافیوں پر حملہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ اسرائیلی جرائم کو رپورٹ نہ کریں، دراصل یہ ایسی آوازیں خاموش کرنے کی کوشش ہے جو صہیونی جرائم کو بے نقاب کرتی ہیں۔ یہ مسئلہ صرف غزہ تک محدود نہیں؛ اسرائیل نے پہلے بھی ایران کے خلاف 12 روزہ جارحانہ جنگ کے دوران قومی نشریاتی ادارے کو نشانہ بنایا۔ تاہم ان خطرات کے باوجود صحافی اپنا کام جاری رکھتے رہے، جو غیر معمولی بہادری اور حقائق پہنچانے کی اعلی مثال ہے۔
پیشہ ورانہ طور پر دیکھا جائے تو صحافیوں پر حملہ ان کے فردی حقوق کی خلاف ورزی ہی نہیں، بلکہ آزادی صحافت اور بین الاقوامی برادری کے جاننے کے حق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ایسے حالات میں میڈیا اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کا کردار ضروری ہے تاکہ وہ غزہ کے ان بہادر صحافیوں کی حفاظت کریں جو اسرائیلی جرائم کی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔
مہر نیوز: غزہ کے صحافی بھوک، محاصرہ اور جان کے خطرات کے باوجود کیوں ڈٹے ہوئے ہیں؟
عثمان الحکیمی: غزہ کے صحافی اسرائیل کی مسلسل دھمکیوں، بھوک اور قحط کے باوجود اپنا کام جاری رکھتے ہیں کیونکہ ان کا مشن جان سے بڑھ کر انسانی حقائق اور دنیا تک خبریں پہنچانا ہے۔ یہ صحافی ان لاکھوں انسانوں کی آواز ہیں جو محاصرے اور بمباری میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر رپورٹ، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور شہریوں، خاص طور پر بچوں، خواتین اور بزرگوں کے دکھ کا ثبوت ہے۔ یہاں تک کہ جب اسرائیل صحافیوں کے گھر اور خاندانوں کو نشانہ بناتا ہے، تب بھی ان کی بہادری اور اخلاقی جرأت کم نہیں ہوتی۔ غزہ کے مقامی صحافیوں کی یہ بہادری دکھاتی ہے کہ قلم اور الفاظ بموں سے زیادہ طاقتور ہوسکتے ہیں اور کوئی بھی دھمکی سچائی کی آواز کو خاموش نہیں کرسکتی۔ ان کی مستقل کوششیں دنیا کے لیے ایک مثال اور بین الاقوامی برادری کے لیے انتباہ ہیں کہ آزادی صحافت کی حمایت ان کی ذمہ داری ہے۔
مہر نیوز: غزہ میں غیر ملکی صحافیوں کی آمد ممنوع ہے، اور زیادہ تر خبریں مقامی صحافی ہی کور کرتے ہیں۔ اسرائیل ان کی آمد پر پابندی کیوں لگاتا ہے؟ کیا بین الاقوامی سطح پر اس سلسلے میں کوئی پیشرفت ہوئی ہے؟
عثمان الحکیمی: اسرائیل غیر ملکی صحافیوں کی آمد کو روک کر اپنے بیانیے کو مضبوط کرنا چاہتا ہے اور اپنے جرائم کے حقائق کو منظر عام پر آنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس لیے زیادہ تر خبریں مقامی صحافی ہی کور کرتے ہیں جو بھوک، محاصرہ اور جان کے خطرے کے باوجود بہادری کے ساتھ اپنا قومی اور انسانی فرض انجام دیتے ہیں۔ تاہم بین الاقوامی برادری واضح تضاد کا مظاہرہ کرتی ہے؛ مقامی صحافیوں کی رپورٹنگ اور ناقابل تردید شواہد کے باوجود انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اسرائیل کے جرائم کے خلاف کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا جاتا۔ یہ خاموشی اور بے عملی بین الاقوامی دوغلے معیار کو ظاہر کرتی ہے، جہاں انسانی حقوق اور انصاف صرف لفظی اہمیت رکھتے ہیں، لیکن عملی طور پر سیاسی مفادات اور طاقت کی پالیسیوں کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسرائیل پر واقعی دباؤ نہیں ہے اور غزہ کے بہادر مقامی صحافی اب بھی بڑے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔
مہر نیوز: اگر آپ غزہ میں صحافیوں کے شہادت کے جرم میں صہیونی حکومت کی مذمت کرنا چاہیں تو کون سے جملے استعمال کریں گے؟
عثمان الحکیمی: غزہ میں صحافیوں کے خلاف اسرائیل کے وحشیانہ اور ٹارگٹڈ حملے انسانیت اور آزادی صحافت کے خلاف بے مثال جرم ہیں۔ اسرائیل نہ صرف انسانی اقدار کا احترام نہیں کرتا بلکہ انسانی جانوں کی اس کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بین الاقوامی برادری جو ان جرائم کے سامنے خاموش ہے، اس کا بالواسطہ شریک بن گئی ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں دوغلا معیار اور منافقت غالب ہے۔ صحافیوں اور غزہ کے عوام کے خلاف صہیونی جرائم ناقابل برداشت ہیں اور ہر شریف انسان کو چاہیے کہ وہ ان اقدامات کی مذمت کرے۔ یہ تمام اقوام کی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ظلم کے سامنے خاموش نہ رہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ صہیونی حکومت کا حقیقی اور غیر انسانی چہرہ مزید عیاں ہوتا جارہا ہے اور دنیا اس کے بے رحمانہ اور لامحدود مظالم کی گواہ ہے جو بے دفاع غزہ کے عوام پر ہورہے ہیں۔
مہر نیوز: کیا مقاومتی صحافیوں کی آواز کو خاموش کیا جاسکتا ہے؟ کیا ان کے قلم کو روک دیا جائے گا؟
عثمان الحکیمی: مقاومتی صحافیوں کی آواز کبھی خاموش نہیں ہوسکتی اور کوئی بھی دھمکی حتی کہ اسرائیل کے شدید ترین حملے بھی حقیقت کو دبانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ غزہ کے بہادر صحافی بمباری، محاصرہ، جان کے خطرات اور ذہنی دباؤ کے باوجود حقیقت پہنچاتے ہیں اور رپورٹنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی کوششیں قابل مذمت اور بے اثر ہیں، کیونکہ آخرکار حقیقت خود کو ظاہر کردیتی ہے اور آزاد میڈیا اور عالمی رائے عامہ اسے منعکس کرتے ہیں۔ مقاومتی صحافیوں کا قلم خشک نہیں ہوتا اور ان کی مسلسل فعالیت اخلاقی شجاعت اور غیر مسلح مزاحمت کی علامت ہے۔
مہر نیوز: بین الاقوامی برادری غزہ میں صحافیوں کے خلاف صہیونی حکومت کے جرائم کے حوالے سے کس حد تک ذمہ دار ہے؟
عثمان الحکیمی: درحقیقت بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ صہیونی حکومت کی مذمت کریں اور غزہ میں صحافیوں کے خلاف جرائم کو روکیں۔ اس معاملے میں عوام اور عوامی تحریکوں کا کردار نہایت اہم ہے۔ مختلف ممالک حتی کہ یورپ میں ہونے والے احتجاجات، مظاہرے اور ریلیاں، صہیونی حکومت اور بین الاقوامی اداروں پر شدید دباؤ ڈالتی ہیں۔
دوسری جانب، صحافیوں کو نشانہ بنانے جیسے واقعات کو دستاویزی شکل دینے اور انہیں بین الاقوامی فورمز، جیسے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کونسل میں پیش کرنے سے صہیونی حکومت پر سیاسی اور قانونی دباؤ بڑھ جاتا ہے اور ادارے مجبور ہوتے ہیں کہ وہ اپنے مقاصد کو صرف نعروں تک محدود نہ رکھیں۔
صہیونی حکومت کے صحافیوں اور فلسطینی عوام کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے لیے عوامی تحریکوں اور جرائم کی درست دستاویزی رپورٹنگ کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ کم از کم سماجی اور بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے انصاف ممکن ہو اور ایسے مظالم کے واقعات سامنے نہ آئیں۔
آپ کا تبصرہ