مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا ہے کہ مذاکرات، ملت ایران کے حقوق کے دفاع کا ایک اہم اور مؤثر ذریعہ ہیں۔ اگرچہ امریکہ پر اعتماد اب منفی سطح پر پہنچ چکا ہے، تاہم سفارت کاری اب بھی ایک ضروری اور مدبرانہ حکمت عملی ہے۔
انہوں نے ایران پر حالیہ غیرقانونی حملے کو عالمی سطح پر اسرائیل کے لیے رسواکن قرار دیتے ہوئے کہا کہ دشمن ایران کی منطقی اور تدبر پر مبنی گفتگو کا مقابلہ نہ کر سکا۔ آج یہ سب پر عیاں ہوچکا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ سے گفتگو اور سفارت کاری کا حامی رہا ہے، جبکہ ایران کے خلاف حالیہ کارروائی نہ کسی قانونی، اخلاقی اور نہ ہی سیاسی معیار پر قابلِ توجیہ ہے۔ یہ حملہ اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق جارحیت کی واضح مثال ہے۔
بقائی نے واضح کیا کہ جارحیت کے بعد صہیونی حکومت دنیا بھر اور خاص طور پر خطے میں یک زبان ہو کر مذمت کا نشانہ بنی۔ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب ایران مذاکرات میں مصروف تھا، اور تمام دنیا نے دیکھا کہ ایران ایک مؤثر اور منطقی مذاکراتی فریق کے طور پر سامنے آیا جبکہ مخالف فریق نے سفارتی اصولوں کو نظرانداز کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ نے نہ صرف بین الاقوامی سفارتی اصولوں کی خلاف ورزی کی بلکہ ایران کا اعتماد بھی مکمل طور پر کھو دیا۔ ہماری نظر میں واشنگٹن پر اعتماد اب "صفر سے نیچے" جا چکا ہے۔
اسماعیل بقائی نے مذاکرات کی افواہوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ باتیں ہمیشہ زیرِ گردش رہتی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذاکرات خود ایک قسم کی جدوجہد اور جنگ ہیں۔ جس طرح مسلح افواج ملک کی سرحدوں کا دفاع کرتی ہیں، اسی طرح وزارتِ خارجہ بھی قوم کے مفادات کے دفاع میں اپنی سفارتی ذمہ داریاں ادا کرتی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مذاکرات خوش کلامی یا محض خیرسگالی کے تبادلے کا میدان نہیں، بلکہ بعض اوقات یہ عسکری میدان سے بھی زیادہ سخت اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ اس لیے سفارت کاری، بات چیت اور مذاکرات کو قومی مفادات کے تحفظ کا ایک سنجیدہ اور باوقار وسیلہ سمجھنا چاہیے۔
بقائی کے مطابق وزارت خارجہ اس معاملے پر بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے پاس مکمل دستاویزی شواہد کے ساتھ مقدمہ دائر کر رہی ہے اور ملوث فریقین کو قانونی طور پر جوابدہ بنانے کے لیے سرگرم ہے۔
انہوں نے میڈیا سے وابستہ تمام افراد سے اپیل کی کہ وہ ایران کے مؤقف کو واضح طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں اور اس بیانیے کی ترویج میں اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔
آپ کا تبصرہ