اسلامی علوم کےمحقق سعید داودی لیمونی نے مہر خبررساں ایجنسی سے گفتگو میں قرآن کی بعض ایسی آیات کی وضاحت کی جو آج کے حالات سے مناسبت رکھتی ہیں اور مؤمنین کی حوصلہ افزائی اور امید کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔
انہوں نے گفتگو کے آغاز میں عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جب خونخوار صہیونی حکومت ایران پر تجاوزات کر رہی ہے، قرآن کی تلاوت اور ان آیات کا مطالعہ جو رسول اللہؐ کے دور کے واقعات کو پیش کرتی ہیں، ہمارے دلوں کے سکون اور تقویت کا باعث بن سکتی ہیں۔ حق و باطل کا معرکہ تاریخ بھر میں جاری رہا ہے، اصل چیز صحیح سمت اختیار کرنا ہے۔
اگر مؤمنین خالص نیت کے ساتھ آگے بڑھیں تو طاغوت پر فتح ان کی ہوگی
داودی نے مؤمن و غیر مؤمن افراد کے ارادوں اور ان کے گروہوں کے فرق کی وضاحت کرتے ہوئے سورہ نساء کی آیت پیش کی: جو ایمان لائے وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں، اور جو کافر ہوئے وہ طاغوت کے راستے میں لڑتے ہیں، پس تم شیطان کے حامیوں سے لڑو، یقیناً شیطان کی چال کمزور ہے۔"(سورہ نساء: 76) یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ اہل ایمان اللہ کی راہ میں، جیسے نماز ادا کرتے ہیں، ویسے ہی ان کی جنگ، دفاع اور جہاد بھی خالصتاً اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، صہیونی جیسے طاغوت کے پیروکار بے گناہوں کا قتل کرتے ہیں اور ان کی نیتیں ناپاک ہوتی ہیں۔
ایک اور آیت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کتنے ہی نبی ایسے گزرے جن کے ساتھ خدا پرستوں کی بڑی جماعتوں نے قتال کیا، مگر وہ لوگ ان مصیبتوں سے نہ گھبرائے جو اللہ کی راہ میں انہیں پیش آئیں، نہ وہ کمزور پڑے، نہ جھکے، اور اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔"(سورہ آل عمران: 146) یہ آیت بتاتی ہے کہ حقیقی مؤمن سختیوں سے نہیں گھبراتے اور ظلم کے سامنے سر نہیں جھکاتے۔
دشمن کا تعاقب ترک نہ کرو
بے شمار ایسے پیغمبر گزرے ہیں جنہوں نے اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ مل کر جہاد کیا، مگر ان پر جب سختیاں، مشکلات، شہادتیں اور زخم آئے تو وہ کبھی کمزور نہیں پڑے، نہ ہی انہوں نے ہار مانی اور نہ دشمن کے آگے جھکے۔ یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ تاریخ میں بے شمار جنگیں ہوئیں، لیکن جو لوگ ایمان رکھتے ہیں، جن کا مقصد واضح ہوتا ہے، اور جو دنیا میں روحانی بلندی اور اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے یہ تکالیف کبھی کمزوری کا سبب نہیں بنتیں۔
فرہنگ و اندیشہ اسلامی تحقیقاتی ادارے کے رکن نے قرآن کی ایک اور آیت کی طرف اشارہ کیا، جو جنگ میں اللہ کی مدد پر روشنی ڈالتی ہے، اور کہا کہ قرآن فرماتا ہے کہ جب تمہیں نقصان پہنچے تو یہ نہ سمجھو کہ دشمن محفوظ ہے، بلکہ فرق صرف یہ ہے کہ "دشمن کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرو، اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو وہ بھی تکلیف اٹھاتے ہیں، لیکن تم اللہ سے وہ امید رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے۔"(سورہ نساء: 104) یعنی مسلمانوں کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ اگر دشمن نے جنگ شروع کی ہے تو انجام ان کے ہاتھ میں نہیں، اور مؤمنین کو اللہ کی مدد پر بھروسا ہونا چاہیے۔
اللہ کی نصرت مظلوموں کے ساتھ ہے
اللہ نے فرمایا:ان لوگوں کو جن سے جنگ کی جا رہی ہے، ان پر ظلم ہوا ہے، اس لیے انہیں اجازت دی گئی ہے، اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔"(سورہ حج: 39) یہ آیت واضح کرتی ہے کہ جن پر جنگ مسلط کی گئی ہو، ان کے لیے دفاع اور جہاد جائز ہے۔ ایران نے حملہ نہیں کیا، بلکہ صہیونی حکومت کے حملے کے بعد دفاع کیا، اور بین الاقوامی قوانین میں بھی یہ "جائز دفاع" تسلیم شدہ ہے۔
بعض آزمائشیں مؤمنین کو نکھارتی ہیں
داودی نے بعض مصیبتوں کو مؤمنوں کے آبدیدہ (مزید مضبوط اور خالص) ہونے کا ذریعہ قرار دیا اور اس موضوع سے متعلق ایک آیت کا حوالہ دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ بعض جنگیں اور آزمائشیں ایسی ہوتی ہیں جو مؤمنوں کو آزمائش میں ڈال کر ان کے عزم و ایمان کو خالص کرتی ہیں، جبکہ کفار اور دشمنوں کو رسوا، ذلیل اور نیست و نابود کر دیتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: ممکن ہے کہ یہی موجودہ جنگ جو ایران پر مسلط کی گئی ہے، ہمارے لیے آبدیدگی کا ذریعہ بنے اور اسی جنگ کے ذریعے اسرائیل کے خاتمے کی بنیاد رکھی جائے۔ جیسے جنگ اُحد میں ابتدائی شکست ہوئی تھی، ویسے ہی حالیہ جنگ میں دشمن نے پہل کی، ہمارے فوجی افسران اور سائنسدانوں کو شہید کیا۔ لیکن بالکل اسی طرح جیسے جنگ اُحد میں رسول اکرم ﷺ نے حکمت سے کام لے کر لشکر کو منظم کیا، اسی طرح ہم نے بھی اس جنگ کے بعد مراحل میں کامیابی حاصل کی۔
جیسے جنگ اُحد میں وقتی شکست آئی لیکن بعد میں فتح نصیب ہوئی، ویسے ہی موجودہ جنگ میں بھی پہلے حملہ دشمن نے کیا، لیکن مؤمنین نے ثابت قدمی دکھائی اور کامیابی حاصل کی۔
قرآن فرماتا ہے: سستی نہ کرو اور نہ غمگین ہو، اگر تم مؤمن ہو تو تم ہی غالب ہو۔ اگر تمہیں زخم لگا ہے تو ان کو بھی لگا ہے، اور ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں تاکہ اللہ ایمان والوں کو الگ کرے اور تم میں سے کچھ کو شہید بنائے۔"(سورہ آل عمران: 139-140)
یہ دنیا کا فطری قانون ہے کہ کبھی بلندی آتی ہے اور کبھی پستی، کبھی ایک فریق شکست کھاتا ہے اور کبھی دوسرا کامیاب ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ قرآن سورۂ آلِ عمران کی آیات میں جنگِ احد کے تناظر میں بیان کرتا ہے، اس جنگ کی ایک خاصیت یہ تھی کہ اس نے مؤمنوں کو خالص اور پختہ کر دیا، اور کفار کے زوال کی بنیاد رکھی۔ اس لیے ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ایسی جنگیں مؤمنوں کی آزمائش اور تربیت کا ذریعہ ہوتی ہیں، جبکہ یہ دشمنانِ الٰہی کے لیے ہلاکت و نابودی کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔
قرآنی محقق نے مزید کہا کہ حقیقی مؤمن وہ ہیں جو اللہ کے عاشق ہوتے ہیں، ظلم و ستم کو دیکھتے ہیں اور جب دشمن حملہ کرتا ہے تو وہ کہتے ہیں: "ہم تو اسی دن کے منتظر تھے"، کیونکہ اب انہیں مظلوموں کا انتقام لینے کا موقع ملا ہے۔ سورۂ احزاب میں جنگ خندق کا ذکر ہے، جہاں قریش کے کئی لشکر متحد ہو گئے، جیسے آج کے دور میں بھی صہیونی حکومت اکیلی نہیں بلکہ کئی طاقتور ممالک اس کے ساتھ ہیں۔ لیکن مؤمنین نے جب ان لشکروں کو دیکھا تو کہا کہ قَالُوا هَٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا" یعنی: "یہی ہے وہ جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اور اللہ و رسول نے سچ کہا، اور اس نے ہمارے ایمان و اطاعت میں اضافہ ہی کیا۔
آخر میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کامیابی ہمیشہ حق کی ہوتی ہے۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ حق پانی کی مانند ہے جو بہتا رہتا ہے اور اس پر جو جھاگ (باطل) آتا ہے وہ صرف تھوڑی دیر کے لیے ہوتا ہے، پھر وہ جھاگ ختم ہو جاتا ہے اور صرف حق باقی رہتا ہے: "فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً"لہٰذا، باطل وقتی زور دکھاتا ہے لیکن آخرکار نابود ہوتا ہے۔ جیسے قرآن کہتا ہے: جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا" یعنی: "حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے ہی والا ہے۔ اگر مؤمنین ثابت قدم رہیں، تو یقینی طور پر کامیابی ان کا مقدر بنے گی اور باطل کا خاتمہ ہوگا۔
آپ کا تبصرہ