مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کی بحالی کے لیے تہران کی شرائط کا اعلان کیا ہے۔
عراقچی نے بین الاقوامی امور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے ذمہ دارانہ اور مدبرانہ رویے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر کے خط کا جواب، اس کے مواد اور لہجے کے مطابق دینے کے ساتھ ہی سفارت کاری کا لہجہ بھی اختیار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ایسے فریق سے براہ راست مذاکرات بے معنی ہیں جو اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلسل طاقت کے استعمال کی دھمکیاں دیتا ہے اور جس کے عہدیدار متضاد بیانات دیتے ہیں۔ تاہم ہم سفارت کاری کے پابند ہیں اور بالواسطہ مذاکرات کے راستے کو آزمانے کے لیے تیار ہیں۔
وزیر خارجہ نے ایران کے جوہری پروگرام کی مکمل پرامن نوعیت کو دہراتے ہوئے کہا کہ ایران نے جوہری معاہدے کے تحت اپنی جوہری سرگرمیوں کی پرامن نوعیت کے بارے میں یقین دہانی کے لیے متعدد رضاکارانہ اقدامات کیے تھے۔ تاہم معاہدے سے یکطرفہ طور پر امریکہ ہی دستبردار ہوا۔ اس تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اعتماد سازی کی بنیاد پر اور ایران پر عائد ظالمانہ پابندیوں کے خاتمے کے بدلے میں، جوہری پروگرام پر مذاکرات کی بحالی کے لیے تیار ہیں۔
عراقچی نے پرعزم لہجے میں کہا کہ اسلامی جمہوری ایران سفارت کاری اور بات چیت کے ذریعے غلط فہمیوں اور تنازعات کے حل کے راستے پر گامزن ہے، لیکن وہ ہر ممکن صورتِ حال کے لیے بھی تیار ہے۔ جس طرح ایران مذاکرات اور سفارت کاری کو سنجیدگی سے لیتا ہے، اسی طرح اپنے قومی مفادات اور خودمختاری کے دفاع میں بھی پرعزم اور ثابت قدم ہے۔
آپ کا تبصرہ