مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا جمعے کا اجلاس اور اس ادارے میں فلسطین کی مکمل رکنیت کے لیے فیصلہ کن اور مثبت ووٹنگ حالیہ سیاسی پیش رفت میں ایک اہم موڑ ہے۔ ایسے حالات میں کہ جب فلسطینیوں کے خلاف صیہونی فوج کے جرائم جاری ہیں، عالمی برادری نے بتدریج انسانی ضمیر کی پکار کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کے جرائم میں شریک نہیں ہو سکتی۔
اگرچہ اقوام متحدہ میں فلسطین کی ایک باضابطہ ریاست کے طور پر مکمل رکنیت اس تنظیم کی سلامتی کونسل کی منظوری پر منحصر ہے، لیکن اب تک یہ امریکہ اور اسرائیل کے لیے ایک بڑی ناکامی رہی ہے اور اب بین الاقوامی نظام نے فلسطین کے سیاسی اور قانونی وجود اور مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت کے بارے میں مزید حقیقت پسندانہ پالیسی اختیار کر لی ہے۔
فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا فیصلہ امریکہ اور اسرائیل کے لئے ایک بہت بڑا جھٹکا تھا جس نے بائیڈن انتظامیہ کے لیے نیتن یاہو کے جرائم کی حمایت جاری رکھنا مشکل بنا دیا۔
کون سے ممالک صیہونی رجیم کے ساتھ رہے؟
درجنوں اسرائیلی اور امریکی سفارت کار اقوام متحدہ میں فلسطین کی باضابطہ رکنیت پر رضامندی کی قرارداد کی عدم منظوری کے لیے لابنگ کر رہے تھے۔ لیکن آخر کار دنیا کے 143 ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے صیہونی امریکی لابیوں کو منفی جواب دینے پر اتفاق کیا۔
جب کہ مخالفین کی تعداد صرف 8 ممالک اور ایک رجیم تھی جب کہ 25 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کے خلاف ووٹ دینے والے ممالک درج ذیل ہیں: صیہونی حکومت، امریکہ، ارجنٹائن، جمہوریہ چیک، ہنگری، مائیکرونیشیا، ناورو، پالاؤ اور پاپوا نیو گنی۔
جیسا کہ اس فہرست میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اب صیہونیوں کے پاس بہت سے اتحادی نہیں رہے اور اس صورت حال کا ایک دلچسپ نکتہ یورپی ممالک میں اسرائیل کے اثر و رسوخ میں شدید کمی کا ظاہر ہونا ہے، کہ اس رجیم کے ساتھ صرف جمہوریہ چیک اور ہنگری باقی رہے۔ جب کہ لاطینی امریکہ میں اسرائیل کی حمایت ارجنٹائن کے سوا کسی نے نہیں کی، باقی تین چھوٹے ممالک مائیکرونیشیا، ناورو اور پالاؤ، دنیا کے نقشے میں بڑی سے دکھائی دیتے ہیں جن کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جب کہ 54 افریقی ممالک میں سے صرف نیو گنی ہی فلسطین کی مخالفت پر آمادہ ہے۔
فلسطینیوں کی رکنیت کے مخالفین کی فہرست پر ایک نظر ڈالنے سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ صیہونی حکومت ایک تاریخی اور بے مثال تنہائی کے دلدل میں پھنس چکی ہے اور دنیا کے ممالک اب اس رجیم کے لئے اپنی ساکھ خراب کرنے کو تیار نہیں ہیں جو اپنی سلامتی کے بہانے بچوں اور خواتین کا قتل عام کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کی ویب سائٹ نے کھل کر اعلان کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش آنے والے کل کے واقعے کے بعد فلسطین کو ایک نئی پوزیشن اور نئے حقوق مل گئے ہیں۔ اب سے فلسطین کا نام بھی ممالک کے ناموں کی حروف تہجی کی فہرست میں شامل کیا جائے گا، فلسطینی سفارت کاروں کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہے، وہ عوامی فیصلوں میں تجاویز اور ترامیم پیش کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، فلسطینی اتھارٹی کے وفد کے نمائندوں کو جنرل اسمبلی اور اس کی مرکزی کمیٹیوں میں بطور افسر منتخب کیا جا سکتا ہے۔ نیز جنرل اسمبلی کی نگرانی میں بین الاقوامی کانفرنسوں اور اجلاسوں میں بھرپور اور موثر شرکت فلسطینیوں کا ایک اور اعزاز ہے۔
صیہونی رجیم کے نمائندے کا موقف؛ دلیل تراشی سے ہٹ دھرمی تک
توقع کے مطابق اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فیصلے کو حماس کے لئے انعام قرار دیا۔ لیکن اس سے بھی مضحکہ خیز حرکت کے مرتکب صیہونی حکومت کے نمائندے گیلاد اردان ہوئے جس نے دنیا کو اسرائیل کے ادارہ جاتی ظلم و ستم پر مبنی مکروہ چہرہ دکھایا۔
ارادان نے جنرل اسمبلی کے فیصلے کے جواب میں روسٹرم پر جا کر دنیا کے 143 ممالک کے انسانی فیصلے کو غلط قرار دینے کے لئے ایک پرانے جھوٹ کا کا سہارا لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد یہودیوں کے خلاف نازی جرمنی کے جرائم کو روکنا تھا اور اب اقوام متحدہ نے فلسطین کو تسلیم کر کے امن کا دفاع کرنے کے بجائے دہشت گردی کی حمایت کی!
ارادان نے علامتی طور پر اقوام متحدہ کے چارٹر کو پھاڑ دیا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ ان کی حکومت بین الاقوامی اصولوں کو خاطر میں نہیں لاتی۔ اقوام متحدہ نے جنرل اسمبلی کے ایک فوٹوگرافر مینوئل الیاس کی طرف سے ارادان کے اس عمل کی لی گئی تصویر کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا۔ یوں صیہونی حکومت کے نمائندے کا یہ توہین آمیز فعل بھی اقوام متحدہ کے محفوظ شدہ دستاویزات کا حصہ بن گیا۔ صیہونی نمائندے کی توہین آمیز کاروائی کے بعد بعض آبادکاروں نے اقوام متحدہ کے مختلف دفاتر پر حملے کرکے صیہونیت کا اصل چہرہ دنیا کو دکھایا۔
امریکہ کا ردعمل
ان دنوں جو بائیڈن حکومت اسرائیل کے جرائم کی مسلسل حمایت کی وجہ سے ایک نازک صورتحال سے گزر رہی ہے۔ کئی امریکی یونیورسٹیوں میں ہزاروں اسرائیل مخالف طلباء کے ساتھ پولیس کی جھڑپیں بائیڈن کی مشکلات کا صرف ایک حصہ ہیں اور پردے کے پیچھے صیہونی سرمایہ کار لابی امریکی معیشت کو مسلسل خطرے سے دوچار کر رہی ہے۔ ایسے میں امریکی موقف اسرائیلی نمائندے اردان کے اقوام متحدہ کے چارٹر کو کچلنے کے مترادف ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ میں امریکی نمائندے نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت کے دباؤ کی وجہ سے واشنگٹن اقوام متحدہ کے اداروں کو ادا کیے جانے والے تمام بجٹ اور کریڈٹ معطل کر سکتا ہے۔ البتہ امریکہ کا یہ طرزعمل کوئی نیا نہیں ہے، 2011 میں فلسطینی اتھارٹی کے مکمل رکن بننے کے بعد امریکہ نے اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے (UNESCO) کی مالی امداد بھی روک دی۔
غزہ اور رفح کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے
گزشتہ روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کے بارے میں فیصلہ کیا جا رہا تھا، جہاں فلسطین کے نمائندے ریاض منصور کے مطابق غزہ کے عوام کو قحط اور خطرات کا سامنا ہے اور یہ خطرہ بدستور جاری ہے۔ صیہونی حکومت نے امدادی گزرگاہوں کو بند کر کے رفح کراسنگ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور ساتھ ہی غزہ کی پٹی کے وسیع علاقے میں تباہ کن نقل مکانی کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔
فلسطینی علاقے سے متعلق سیاسی اور سیکورٹی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سفارتی اقدام ایک مثبت اور قابل قدر واقعہ ہے، لیکن اس سے رفح میں غاصب رجیم کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔
علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اعلان کیا ہے کہ غزہ کے جنوب میں واقع شہر رفح کی صورتحال نازک ہے اور جنگ جلد از جلد ختم ہونی چاہیے۔ گوٹیریس نے کہا: "رفح کی صورتحال انتہائی خراب ہو چکی ہے اور تقریباً 200,000 فلسطینی رفح سے شمال کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔
یونیسیف نے بھی خبردار کیا ہے کہ ایندھن کی کمی کی وجہ سے آئندہ چند دنوں میں غزہ میں انسانی امداد کی کوششیں رک سکتی ہیں۔ ادھر UNRWA نے بھی آگاہ کیا ہے کہ صیہونی حکومت نے غزہ کی پٹی میں تمام ریڈ لائنز عبور کر لی ہیں اور فلسطینی خواتین اور بچے انتہائی خطرے میں ہیں۔
آپ کا تبصرہ