30 اپریل، 2024، 6:38 PM

تہران ٹائمز کی رپورٹ؛

ایران کی دور اندیش قیادت نے ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کر دیا

ایران کی دور اندیش قیادت نے ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کر دیا

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی بصیرت نے اسلامی جمہوریہ ایران کو میزائل ٹیکنالوجی میں سرفہرست ممالک کی صف میں لاکھڑا کر دیا۔

مہر نیوز کے مطابق، قومی دفاع کے میدان میں اسلامی جمہوریہ ایران نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی اسٹریٹجک دور اندیشی کی بدولت ایک مضبوط موقف برقرار رکھا ہے۔

ایران کے میزائل پروگرام کے معمار کے طور پر، رہبر معظم انقلاب آیت اللہ خامنہ ای کا کردار ملک کی ڈیٹرنس پاور کو بڑھانے میں کلیدی رہا ہے۔

 قیادت اور ایران کا میزائل پروگرام

جون 2017 کے آخر میں خطاب کرتے ہوئے، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے ایران کی میزائل صنعت کے قیام میں آیت اللہ خامنہ ای کے اہم کردار پر روشنی ڈالی۔ 

انہوں نے کہا کہآٹھ سالہ دفاع مقدس (1980 کی دہائی میں حملہ آور صدام کی فوج کے خلاف ایران کا دفاع) کے بعد سے رہبر معظم انقلاب کی بصیرت اور راہنمائی کی بدولت ملک کی عسکری صلاحیتوں بشمول ریورس انجینئرنگ کے شعبے میں قابل قدر پیش رفت سامنے آئی ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت میں ایران کے دفاعی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور بیرونی خطرات کے مقابلے میں اس کی ڈیٹرنس پاور اور دفاعی تیاری کو یقینی بنانے کے لیے پوری ثابت قدمی کے ساتھ جدو جہد کی گئی۔ 

رہبر معظم کے اس اعلی نقطہ نظر نے ایران کو ایک علاقائی طاقت کے طور پر منوانے کے قابل بنایا ہے، جو اپنی خودمختاری کی حفاظت کرتے ہوئے ممکنہ جارحین کو روکنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

مزید برآں، خود انحصاری اور مقامی ایجادات پر آیت اللہ خامنہ ای کی تاکید اور سفارش نے نہ صرف ایران کی تکنیکی پیش رفت کو پر لگا دئے بلکہ خطے میں دفاعی ٹیکنالوجی میں ایک خودکفیل اور طاقتور ملک کے طور پر اس کی پوزیشن کو بھی مستحکم کیا ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے 30 مارچ 2016 کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کے موقع پر ملک کے اعلی حکام سے ملاقات میں مغربی طاقتوں کی غنڈہ گردی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میں سیاسی مذاکرات کے خلاف نہیں ہوں۔ کچھ مستثنیات ہیں۔ میں بین الاقوامی سطح پر سیاسی مذاکرات کے حق میں ہوں۔ میرے اس سلسلے میں اپنے دورِ صدارت میں ہی کچھ خیالات تھے اور میں نے ہمیشہ ایسے معاملات کو آگے بڑھایا ہے۔ وہ یہ بہانہ نہ بنائیں کہ ہم کلی طور پر مذاکرات کے ہی خلاف ہیں۔ ایسی بات نہیں ہے. ہم ان سے زیادہ اس چیز سے اتفاق کرتے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ ان سے بہتر بات چیت کیسے کی جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس سلسلے میں کس طرح عمل کرنا ہے۔ دشمن سیاسی مذاکرات کو بھی استعمال کر رہا ہے۔ اس لیے ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔‘‘

رہبر معظم انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے ایک اور جگہ اپنے تبصرے میں  فرمایا: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا مستقبل مذاکرات ہے، میزائل نہیں۔" اگر یہ بات جہالت کی وجہ سے کہی گئی ہے تو واضح ہے کہ یہ نری جہالت ہے، لیکن اگر دانستہ طور پر کہی گئی تو یہ نہایت خطرناک ہے! ایسا کیسے ممکن ہے؟ کہ اسلامی جمہوریہ ایران سائنس اور ٹیکنالوجی، سیاسی مذاکرات اور مختلف مالیاتی اور اقتصادی منصوبوں پر تو عمل پیرا ہو جو کہ یقیناً ضروری ہیں - لیکن اس کے پاس دفاع کی طاقت نہیں ہو، اس صورت میں تو کوئی بھی بدمعاش اور کوئی بھی چھوٹی سے چھوٹی حکومت بھی اسے دھمکی دے گی۔ اگر آپ کو دفاع کا موقع نہیں ملے گا، تو آپ یقینا پسپا ہونے پر مجبور ہو جائیں گے۔

رہبر معظم کے بقول، پاسداران انقلاب اسلامی کی کامیابیاں "نہ صرف ایرانیوں بلکہ دیگر اقوام کے لیے بھی فخر اور اعزاز کا باعث ہیں۔

انہوں نے 25 اکتوبر 2017 کو  فوجی کیڈٹس سے اپنے خطاب میں، سیکورٹی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ سیکورٹی سب سے اہم شعبوں میں سے ایک ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر دوسری کامیابی سیکورٹی پر منحصر ہے۔ اگر سیکورٹی موجود نہیں ہے تو سائنسی، صنعتی اور اقتصادی کامیابیاں بھی موجود نہیں رہیں گی۔

آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ ہمیں دشمن کی خواہشات کے برعکس اور اپنے طاقت کے عناصر پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ہم پہلے بھی اعلان کر چکے ہیں اور ہم ایک بار پھر اعلان کرنا چاہیں گے کہ ملک کے دفاعی وسائل اور طاقت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ کیا وہ ہمارے  دفاعی ذرائع کی مختلف شکلیں اور ورژن  پر تحقیق کرنے پر تنقید کر سکتے ہیں؟ ہم ان چیزوں پر دشمن سے سودے بازی اور مذاکرات نہیں کریں گے اور  ہیں۔ ہم ملک کی سائنسی ایجادات اور عسکری طاقت کے راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں، اور یہ ذمہ داری آپ کے کندھوں پر آتی ہے۔

قابل ذکر ہےکہ رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای مختلف ادوار میں ملک کے دفاعی میزائل پروگرام کے حامی بن کر ابھرے ہیں۔ ان کے اس غیر متزلزل موقف کہ ایران کی میزائل صلاحیتوں پر بات نہیں کی جا سکتی، نے اپنی سرحدوں اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ملک کے عزم کو واضح کر دیا ہے۔

اسلامی انقلاب کے بعد سے، آیت اللہ خامنہ ای نے ثابت قدمی سے میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی کی حمایت کی ہے، اور اسے قوم کی دفاعی حکمت عملی کا ایک اہم جزو تسلیم کیا ہے۔ ان کی اس ثابت قدمی اور بھرپور حمایت نے ایران کو میزائل ٹیکنالوجی کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی مؤثر طریقے سے حفاطت کر سکتا ہے۔

13 اپریل کو صیہونی رجیم کی جارحیت پر اسلامی جمہوریہ کے حالیہ جوابی ردعمل نے ایک بار پھر ایران کے میزائل پروگرام کو مغرب کے ساتھ مذاکرات کے دائرے سے باہر رکھنے کے بارے میں آیت اللہ خامنہ ای کے پختہ موقف کو ظاہر کیا ہے۔ یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد، ایران نے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے والے ڈرونز اور میزائلوں کے ساتھ فوری جواب دیا۔

مذکورہ "آپریشن وعدہ صادق" میں مبینہ طور پر کل 300 ڈرون اور میزائل شامل تھے جن کا مقصد مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا تھا۔ یہ فیصلہ کن اقدام بتاتا ہے کہ ایران کی زبردست میزائل صلاحیت کے بغیر ایسا ردعمل کیسے ممکن تھا؟

آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ایران دھمکیوں اور جارحیت کا جواب دینے، ملکی مفادات کے تحفظ اور ممکنہ مخالفین کو روکنے میں اپنی بالا دستی کو برقرار رکھے۔

یہاں تک کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں جوہری معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کے باوجود آیت اللہ خامنہ ای کی دور اندیشی غالب رہی۔ ایران نے اپنی میزائل صلاحیتوں، علاقائی اثر و رسوخ اور جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے ٹرمپ کے مطالبات کو قبول کرنے سے انکار کیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کا وژن قومی خودمختاری کے تحفظ اور بیرونی جارحیت کو روکنے کے ان کے عزم کا اعلی مظہر ہے۔

News ID 1923668

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha