مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: تل ابیب میں جمہوریت پسندوں اور دائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان اختلافات کے بارے میں قیاس آرائیوں کے برعکس، غزہ جنگ کے دوران امریکہ، سیاسی، مالی اور ہتھیاروں کی مدد لے لحاظ سے صیہونی حکومت کے اہم اتحادیوں اور حامیوں میں سے ایک تھا۔
تاہم مبصرین نے غزہ جنگ کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کے اس طرزعمل کو ان کی خارجہ پالیسی کا تاریک ترین نقطہ اور شرمناک باب قرار دیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نوروز کے موقع پر اپنے خطاب کے دوران غزہ کی پٹی میں جاری جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے فلسطینی مزاحمت کے حامیوں اور دشمنوں کی ناکامیوں کو بیان کرنے کے ساتھ اس جنگ میں امریکہ کے کردار کے بارے میں کہا: غزہ کے عوام پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملے کے پہلے ہی دنوں میں امریکیوں اور یورپیوں نے تل ابیب کے دورے کرکے صیہونی مجرموں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ یہ صرف اعلان نہیں تھا، بلکہ انہوں نے مہلک ہتھیار بھیجے، ہر قسم کی ممالی اور فوجی مدد کی۔ آج کی دنیا کا المیہ یہ ہے کہ آج ہم ایک ایسی وحشت ناک دنیا کا سامنا کر رہے ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے امریکیوں کے شرمناک اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کی اس طرح کی پالیسی کو اپنانے کا نتیجہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں امریکہ سے شدید نفرت کی جاتی ہے۔
اس مضمون ہم کوشش کریں گے کہ غزہ جنگ کے دوران امریکی کی طرف سے صیہونی حکومت کو دی جانے والی ہتھیاروں کی امداد پر ایک نظر ڈالیں۔
اسرائیل کی حمایت کے مقصد سے بحیرہ روم میں جیرالڈ فورڈ جہاز کی تعیناتی۔
مالی اور ہتھیاروں کی امداد
طوفان الاقصیٰ آپریشن کے صرف ایک گھنٹے بعد بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو ہنگامی امداد بھیجنے کے لیے 2 بلین ڈالر مختص کرنے کا اعلان کیا۔ 20 اکتوبر کو بائیڈن حکومت نے دنیا کے مختلف حصوں میں امریکہ کے اتحادیوں کی مدد کے لیے 106 بلین ڈالر کا بجات منظور کیا جس کی بنیاد پر صیہونی حکومت کی مالی امداد کے لیے 14 بلین ڈالر مختص کیے گئے۔ تاہم سینیٹ میں اس منصوبے کی ابتدائی منظوری کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں میں ولسونین اور جیکسونین دھڑوں کے درمیان دشمنی نے اس بل کی منظوری میں تاخیر کی ہے۔
رون کمپیاس نے ٹائمز آف اسرائیل کے لیے ایک مضمون میں لکھا کہ اسرائیل کے لیے اتنی بڑی امداد مختص کرنا صرف غزہ جنگ میں اس رجیم کی برتری برقرار رکھنے کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ اس مالی امداد کو مختلف محاذوں پر اسرائیل کی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں، امریکی حکام، جنگ کا دائرہ لبنان یا بحیرہ احمر تک منتقل نہ کرنے کے اپنے سیاسی موقف کے برعکس، فوجی ہتھیاروں اور اسرائیلی حکومت کو خطے کے دیگر حصوں میں جنگ کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے مضبوط کر رہے ہیں۔
صہیونی فوج امریکی امداد کے بغیر جنگ میں حصہ نہیں لے سکتی تھی
غزہ جنگ کے آغاز سے قبل صیہونی فوج کو امریکی فوجی امداد کی رقم 3.8 بلین ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی تھی۔ دوسرے لفظوں میں اسرائیل کو 1948 سے اب تک 158 بلین ڈالر سے زیادہ کی فوجی امداد ملی ہے۔ طوفان الاقصیٰ کے آغاز کے ساتھ ہی امریکہ اور صیہونی حکومت کے درمیان فوجی سیکورٹی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے حکم پر جیرالڈ فورڈ جہاز پر تعینات امریکی ٹاسک فورسز غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کی حمایت کے لیے مشرقی بحیرہ روم میں گئیں۔
اسی دوران امریکی محکمہ دفاع نے آئرن ڈوم دفاعی نظام کی دوبارہ فراہمی کرتے ہوئے تل ابیب کو یقین دلایا کہ گولہ بارود، لڑاکا طیارے اور گائیڈڈ میزائل مقبوضہ علاقوں میں بھیجے جاتے رہیں گے۔ 14 اکتوبر کو دوسرا امریکی جہاز F-16، F-15 اور E-10 لڑاکا طیاروں کے ساتھ مغربی ایشیا کے لیے روانہ ہوا۔ اس کے علاوہ، امریکی ڈیلٹا فورس بظاہر غزہ پر منصوبہ بندی اور زمینی حملے کے دوران میدان میں موجود تھی اور اس نے صرف مالی امداد اور مشاورت پر اکتفا نہیں کیا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کی اسرائیل کے لئے امریکی فوجی مدد کی مخالفت
اسرائیل کو امریکی ہتھیاروں کی حمایت کے حوالے سے انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کی شدید تنقید کے بعد، بائیڈن حکومت نے قومی سلامتی کے لیے ایک ہدایت جاری کی، جس کے مطابق اسے اسرائیلی حکومت سے شہریوں کے خلاف امریکی ہتھیاروں کے استعمال نہ کرنے کی تحریری ضمانت ملے گی۔
غزہ جنگ میں انسانی حقوق کی پاسداری پر زور دینے والے ڈیموکریٹس کے پروپیگنڈہ شوز کے باوجود، بالآخر 29 مارچ 2024 کو، بائیڈن نے اربوں ڈالر کے جدید جنگجو اور بم اسرائیل کو منتقل کرنے کا اختیار دیا۔ اس سے پہلے امریکی ایوان نمائندگان کے ترقی پسند نمائندوں جیسے برنی سینڈرز نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ ملکی حکومت اسلحہ کی منتقلی کے قانون پر نظرثانی کرے اور تل ابیب کو میدان جنگ میں انسانی حقوق کے معیارات پر عمل کرنے کا پابند بنائے۔
فلسطینیوں کی نسل کشی میں شریک
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق 7 مارچ 2024 تک امریکا سے ہتھیاروں کی 100 سے زائد کھیپ مقبوضہ فلسطین بھیجی جا چکی ہے۔ سیاسی محاذ پر، امریکہ نے اب تک تل ابیب کے حق میں سلامتی کونسل کی پانچ قراردادوں کو ویٹو کر دیا ہے اور صہیونیوں کے جرائم کی مذمت اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے عالمی اتفاق رائے پیدا نہیں ہونے دیا۔ حتیٰ کہ جب واشنگٹن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا حق استعمال نہیں کیا تو اس نے صیہونی حکومت کے لیے اس کونسل کی قرارداد کی غیر پابند نوعیت کے بارے میں فوراً بات کی۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ ایران کے جوہری تنازعے کے دوران امریکی حکام نے ہمیشہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کی ضرورت پر بات کی تھی لیکن غزہ جنگ کے تجربے نے ظاہر کیا کہ اسرائیل کی سلامتی امریکی سیاستدانوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ تاہم اس عمل سے عالمی برادری میں امریکہ کی سبکی ہوئی۔
یمن پر امریکی برطانوی فضائی حملے
صیہونی رجیم کو بائیڈن حکومت کی صرف مالی امداد اور ہتھیار بھیجنے پر ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ واشنگٹن نے مغربی ایشیائی خطے میں اپنے یورپی اور عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر صیہونی حکومت کے گرد ایک دفاعی حلقہ تشکیل دیا ہے اور وہ مشرقی عرب خطے اور شمالی بحر ہند میں مزاحمتی اقدامات کے خلاف ایک "پراکسی فورس" کے طور پر کھڑا ہے۔
مثال کے طور پر، یمنی فوج نے صیہونی حکومت سے تعلق رکھنے والے بحری جہازوں کے خلاف اپنی کارروائیوں کو تیز کرنے کے بعد، امریکی فوج نے خطے کے پانیوں میں اسرائیل کے تجارتی مفادات کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ امریکیوں کی طرف سے اس طرح کا رویہ اپنانا غزہ میں جنگ کے خاتمے اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے دائرہ کار کو کنٹرول کرنے کے لیے امریکیوں کی شرارت کو ظاہر کرتا ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے اس طرح کا طرز عمل اپنانا اسرائیل کو غزہ کی جنگ کے چھے ماہ بعد بھی نہ صرف جنگ ختم کرنے کی جلدی نہیں بلکہ وہ رفح کے علاقے پر زمینی حملہ کرنے کے لئے پر تول رہا ہے۔
نتیجہ
پریس ریلیز اور کانفرنسوں میں دیے گئے بیانات کے برعکس ایسا لگتا ہے کہ بائیڈن حکومت غزہ کی پٹی میں نیتن یاہو رجیم اور اسرائیلی فوج کی حمایت سے دستبردار ہونا نہیں چاہتے۔
دوسرے لفظوں میں، پروپیگنڈہ شوز شروع کر کے، ڈیموکریٹس خود کو غزہ کے لوگوں کا حامی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ترقی پسند قوتوں اور امریکی مسلمانوں کی تسلی کے لیے انسانی امداد بھیج کر ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس وقت، امریکی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی ٹیم کے ارکان، AIPAC اور J Street جیسی اسرائیلی لابیوں کے ساتھ مل کر، مقبوضہ علاقوں کو بھیجی جانے والی ہر قسم کی مالی فوجی امداد کی منظوری اور اس پر عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔
اگرچہ بائیڈن کی دوغلی پالیسی قلیل مدت میں رائے عامہ کے ایک حصے کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو سکتی ہے، لیکن آخر کار یہ منافقانہ طرزعمل آشکار ہو جائے گا اور امریکی حکومت کو بین الاقوامی برادری کے سامنے مزید نفرت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آپ کا تبصرہ