مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ شہیدڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کو 29 برس بیت گئے۔ وہ اس قدر مقبول اور مخلص تھے کہ لوگ انہیں پاکستان کا چمران کہتے تھے۔ وہ پاکستانی معاشرے میں بیداری اور شعور پھیلارہے تھے۔ امریکی ایجنٹوں کے لئے ان کی سرگرمیاں ناقبول ہوگئی تھیں لہذا ان کو شہید کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ذیل میں ہم پاکستان، ایران حتیٰ کہ سعودی عرب میں شہید نقوی کی منفرد کاوشوں کا مختصر جائزہ لیں گے۔
شہید ڈاکٹر نقوی انقلاب اسلامی سے پہلے
محمد علی ایک ایسے باپ کا بیٹا تھا جس نے دین اسلام کو پھیلانے کے لیے تین براعظموں کا سفر کیا تھا، وہ اپنی ذہانت کے ساتھ لاہور کے میڈیکل کالج میں داخل ہوا، لیکن اسے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ 60 اور 70 کی دہائی میں پاکستان کے شیعہ طالب علموں کو سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ شیعہ طلباء اپنے مکتب فکر سے ناواقف تھے اسی لئے ہر گروہ میں داخل ہوتے تھے۔
ان حالات میں ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر شیعہ نوجوانوں کے لیے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا آغاز کیا تاکہ ان کے اصل اور صحیح عقائد سیکھیں۔ وہ تنظیم جس کی اب پاکستان کے تمام شہروں میں شاخیں ہیں اور اس کے لاکھوں ممبران ہیں۔ ڈاکٹر نقوی نے ایسے افراد کو شامل کیا جن کے نام شیعوں سے ملتے جلتے تھے۔
ان سالوں میں وہ امام خمینی رح کے افکار سے آشنا ہو چکے تھے اور سمجھتے تھے کہ صحیح راستہ اور زیادتیوں سے دوری امام خمینی کے افکار کے دل سے نکلتی ہے۔ انہوں نےاپنے دوستوں سے مل کر امام خمینی کے توضیح المسائل کا اردو میں ترجمہ کیا اور پاکستان کے مختلف علاقوں تک پہنچایا۔
شیعہ نوجوان تقلید کے موضوع سے واقف ہو گئے، اپنے فرائض کو بہتر طور پر سمجھ گئے اور آخر کار خمینی کی انقلابی جدوجہد کے حامی بن گئے۔ 1976 میں جب ایران کے شاہ پاکستان کا دورہ کرنے کا ارادہ کر رہے تھے، محمد علی نے انقلابی اور استکبار مخالف نعرے لگائے کہ محمد رضا پہلوی کا دورہ پاکستان منسوخ ہو گیا۔
انہیں امریکہ کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگانے اور امریکی ثقافتی اثر و رسوخ کے خلاف جدوجہد کے الزام میں کئی بار گرفتار کیا گیا لیکن وہ بازنہیں آئے۔ پاکستان کے لوگ شہید نقوی کی فعالیت کی وجہ سے دن رات خبروں سے مطلع رہتے تھے اور آخر کار پاکستان ایران کے اسلامی انقلاب کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔
شہید نقوی اور انقلاب اسلامی
اسلامی انقلاب کی فتح ایک خوشگوار خبر تھی جس نے پاکستان کے عوام کے دلوں میں امیدیں تازہ کر دیں۔ محمد علی نے اپنی سرگرمیوں کو دوگنا کر دیا اور انقلاب کے افکار اور نظریات کو پھیلانا شروع کیا۔ ہر وقت امام خمینی کا نام ان کی زبان پر رہتا تھا۔ ایران کے خلاف جنگ مسلط کی گئی تو امام خمینی کی جانب سے دعوت عام کے بعد شہید نقوی اچانک منظر عام سے غائب ہوگئے۔
محمد علی نقوی کے لاپتہ ہونے کے 3 دن بعد ایران سے ان کے اہل خانہ کو کال کی گئی اور انہیں پتہ چلا کہ محمد علی حق و باطل کی جنگ کے محاذوں پر پہنچ گئے ہیں اور خوزستان کے مختلف شہروں میں مجاہدین اسلام کے لئے طبی خدمات فراہم کررہے ہیں۔
شاہد نقوی نے 8 گھنٹے کی بجائے 16 گھنٹے کام کیا اور جب انہیں آرام کرنے کا کہا تو انہوں نے کہا کہ میں یہاں آرام کرنے نہیں آیا۔ اپنے جوش و جذبے کی وجہ شہید نقوی پاکستانی ڈاکٹر یا محنت کش ڈاکٹر کے نام سے معروف ہوگئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا تاریخی استقبال
محمد علی نقوی کا منفرد اقدام 1986 میں پاکستانی عوام کا ایرانی صدر کا تاریخی استقبال تھا۔ یہ استقبال اتنا شاندار اور عجیب تھا کہ آیت اللہ خامنہ ای اس کو برسوں تک یاد کرتے تھے۔
ایران کے صدر کا مقبرہ اقبال تک کا سفر 15 منٹ میں مکمل ہونا تھا لیکن اس سفر میں 8 گھنٹے سے زائد کا وقت لگا جس میں استقبال کرنے والے بہت بڑے ہجوم نے شہید نقوی کی دعوت کو قبول کیا اور امام خمینی کے نمائندہ کے استقبال کے لیے چوک پر پہنچے۔ لوگ اکثر رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے ایران کے صدر کو لے جانے والی گاڑی کو اٹھاتے تھے۔
خبر ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کی لاہور میں موجودگی اعلان کردہ شیڈول سے ایک دن بعد ہوئی، لیکن شہید نقوی نے انتظار کرنے والوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں دکھانا چاہیے کہ ہم کتنے انقلاب کے ساتھ ہیں۔ لاہوریوں کو چاہیے کہ وہ کل تک مختلف شہروں سے آنے والے مہمانوں میں سے ایک ایک مہمان اپنے گھر لے جائیں اور ان کا استقبال کریں۔
ایک بار پھر مقدس دفاع
شہید نقوی کو اطلاع ملی کہ جنگی محاذ پر مجاہدین کے لئے دوائیوں کی قلت کا سامنا ہے اس لیے اس نے ایک ٹرک کرائے پر لیا اور کم سے کم وقت میں اس میں دوائی بھر دادی۔ جب وہ سرحد پر پہنچے تو انتظامی مسئلے کی وجہ سے اسے ایران میں داخل ہونے سے روک دیا گیا، اسے کوئٹہ (600 کلومیٹر دور) جا کر اپنا مسئلہ حل کرنا تھا، شاید کسی اور نے سفر روک دیا تھا۔
ایک دن بعد محمد علی دوبارہ ایران کی سرحد پر پہنچ گئے۔ سرحدی اہلکاروں نے اس سے کہا کہ آپ اس وقت تک ایران میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک آپ کا مسئلہ حل نہ ہو جائے، اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ محمد علی اس وقت کوئٹہ گئے، مسئلہ حل کیا اور واپس آ گئے!
امام خمینی کی محبت میں آل سعود کی قید میں
محمد علی نے سنا کہ ایرانی زائرین کے قتل کی وجہ سے حج پر پابندی لگ گئی ہے اور مشرکین سے ا ظہار برائت کرنے کے امام کے حکم پر عمل کرنے والا کوئی نہیں بچا۔ وہ امام کے حکم سے اتنی آسانی سے پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا۔ دوسری جانب سعودی حکام مطمئن تھے لیکن اچانک ان کا سامنا پاکستانیوں کے ایک ہجوم سے ہوا جو امام کی تصویریں اٹھائے ہوئے اور مشرکین کے برائت کے نعرے لگا رہے تھے۔یہ محمد علی ہی تھے جنہوں نے ایک ماہ قبل اپنے دوستوں کو پوسٹرز اور پلے کارڈز کے ساتھ سعودی عرب بھیجا تھا۔ محمد علی کو اس کے کام کی وجہ سے مہینوں تک سعودیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور اذیتیں ختم ہونے کے بعد انہوں نے دوبارہ مسکراتے ہوئے کہا کہ "امام خمینی پر قربان" اس طرح دوبارہ اذیتوں کاسلسلہ شروع ہوا ۔
چمران پاکستان
سفیر انقلاب کو فرزند کو بالآخر 7 مارچ 1995 کو سپاہ صحابہ کے کارندوں نے اپنے دفتر کے قریب شہید کر دیا جس سے ان کی وصیت پوری ہوگئی کہ مجھے امام کے لشکر میں شہید ہونا ہے تاکہ شہداء کی صف میں شامل ہوکر بخشش مل جائے۔
آپ کا تبصرہ