31 جنوری، 2024، 4:14 PM

انصاراللہ کے رکن کی مہر نیوز سے گفتگو:

غزہ میں جرائم کے خاتمے تک کاروائیاں جاری رکھیں گے

غزہ میں جرائم کے خاتمے تک کاروائیاں جاری رکھیں گے

انصار اللہ کے سیاسی دفتر کے ایک سینئر رکن نے کہا کہ یمنی فوج غزہ میں جرائم کے خاتمے اور ناکہ بندی ختم ہونے تک اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گی اور اسی طرح وہ امریکہ اور برطانیہ کے بھی دانت کھٹے کریں گی۔

مہر خبررساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے یمن کی تحریک انصار اللہ کے سیاسی بیورو کے رکن حزام الاسد نے تازہ ترین علاقائی صورت حال سے متعلق سوالات کے جوابات دئے۔

 انہوں نے کہا کہ غاصب صیہونی حکومت کی حمایت اور غزہ میں نسل کشی کو جاری رکھنے میں امریکہ کا نمایاں کردار ہے اور اس سلسلے میں وہ اپنے لے پالک بین الاقوامی اداروں کے ذریعے غزہ میں صیہونیوں کی جارحیت کی حمایت کر رہا ہے۔ 

حزام الاسد کے مہر خبررساں ایجنسی کو دئے گئے انٹرویو کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

مہر نہوز: عالمی انصاف کے حوالے سے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان کے خلاف صیہونی رجیم کے جرائم کو تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود عالمی برادری خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے جب کہ اس دوران یمن کی حکومت اور انصار اللہ نے فلسطین کے مظلوموں اور غزہ کی عورتوں اور بچوں کا سنجیدہ دفاع کرنا شروع کیا تو عالمی برادری انہیں دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں ڈالنے لگی ہے۔ آپ اس دوغلے روئے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟

جسے بین الاقوامی انصاف کہا جاتا ہے وہ دراصل امریکی پالیسیوں کا محافظ ہے۔ بین الاقوامی ادارے دوسری جنگ عظیم کے بعد صرف اس جنگ میں جیتنے والے فریقوں کی حمایت کے لیے قائم کئے گئے تھے اور ان کی تشکیل کا مقصد جارح طاقتوں کے جرائم کو قانونی جواز اور تحفظ فراہم کرنا تھا۔ 

لہذا، ہم دیکھتے ہیں کہ امریکی آج صیہونی حکومت کی حفاظت اور حمایت کرتے ہیں اور خود کو بحیرہ احمر، خلیج عدن اور بحیرہ عرب کے محافظوں کے طور پر پیش کرتے ہیں اور وہ ان علاقوں کی تقدیر کو صیہونی رجیم کے ساتھ مل کر نئے سرے سے متعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی غاصب رجیم کہ جس نے غزہ کے نہتے عوام کے خلاف سب سے زیادہ جرائم کا ارتکاب کیا اور اس علاقے کے باشندوں کی نسل کشی جاری رکھی ہوئی ہے۔

اس سلسلے میں امریکہ نے ایک بین الاقوامی اتحاد بنانے کی کوشش کی جو کہ یقیناً فوراً ٹوٹ گیا لیکن اس کے باوجود اس نے برطانیہ کو ساتھ ملاکر اپنا مکروہ چہرہ دکھایا اور یمن کی طاقتور قوم کو اپنے موقف سے ہٹانے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں اس نے دھونس دھمکیوں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی، یمن کی بحریہ کو نشانہ بنایا اور بعض علاقوں پر میزائل حملے کے ساتھ ساتھ انصار اللہ کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں ڈال دیا۔

لیکن اس مسئلے نے امریکہ کی بے بسی اور اس کے شکست خوردہ چہرے کو مزید برملا کر دیا ہے، خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ بحیرہ احمر میں ہماری بحریہ کا آپریشن غزہ پر حملے کے خاتمے اور اس کی ناکہ بندی کے خاتمے تک اسرائیلی جہازوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے جاری ہے۔

مہر نیوز: سید عبدالمالک بدر الدین الحوثی نے اپنے بیان میں کہا: "امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ہمارے ملک کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی ہے اور یمن کے ساتھ جنگ چھیڑی ہے۔" کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یمن ایک بڑے پیمانے پر جنگ کا حصہ بنے گا؟ یہ سوال جو ہر کسی کی طرف سے اٹھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ یمن گزشتہ برسوں کے محاصرے کے باوجود عالمی استکبار کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟

امریکی غزہ پر حملہ کرنے اور وہاں نسل کشی کرنے میں صیہونی حکومت کے ساتھ شریک ہیں، جس طرح وہ ہمارے ملک کی بحری قوت اور علاقائی سالمیت پر حملہ کرنے میں برطانویوں کے ساتھ شریک ہیں، اسی طرح ہم اسرائیلی جہازوں یا بندرگاہوں کی طرف جانے والے جہازوں پر حملہ کریں گے۔ یہ آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک جارحیت بند نہیں ہو جاتی اور غزہ کی ناکہ بندی ختم نہیں کر دی جاتی۔۔اسی طرح ہم امریکی اور برطانوی فورسز کو یمنی افواج اور ملک کی ارضی سالمیت کے خلاف جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے۔

مہر نیوز: سید عبدالمالک بدر الدین الحوثی نے اپنے بیانات میں تاکید کی کہ امریکہ اور برطانیہ کی جارحیت کا یمن کی فوجی طاقت پر کوئی اثر نہیں ہے اور یہ صرف نفسیاتی حربہ ہے۔ آپ کی رائے میں مغربی اور صہیونی میڈیا اور اسرائیل سے وابستہ عرب ذرائع ابلاغ جو تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے درپے ہیں، رائے عامہ پر کس حد تک منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں اور انصار اللہ کے رہنما کے بیانات کس حد تک عالمی استکباری قوتوں اور ان کے حامیوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں؟

امریکی اپنے ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے مغربی اور یورپی معاشرے کو خیالی فتوحات دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ انہوں نے یمنی فوج کی عسکری صلاحیتوں کو نشانہ بنایا ہے تاکہ وہ انہیں اپنے صہیونی اتحاد میں شامل کر کے جارحیت کو بڑھا سکیں۔ لیکن جو کچھ ہوا وہ ان دعووں کے برعکس ہے، کیونکہ امریکیوں کی کسی بھی کارروائی پر یمنیوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے، اور بحیرہ احمر میں جہاز رانی سمیت امریکہ اور برطانیہ کے مفادات کو شدید نقصان پہنچا ہے اور ہماری افواج نے ان کے لئے بحیرہ عرب کو رسک پوائنٹ بنا دیا ہے۔ 

سید عبدالمالک بدر الدین الحوثی نے اپنے بیانات میں حقائق کے بارے میں دیانتداری سے بات کی اور ان بیانات نے عالمی رائے عامہ اور خاص طور پر مغربی معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کئے جو اب امریکی بیانیے پر اعتبار نہیں کرتے، کیونکہ اس بیانیے کا کھوکھلاپن ثابت ہو چکا ہے۔ 

News ID 1921600

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha