مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے منگل کی صبح پورے ملک کے ائمۂ جمعہ سے ملاقات کی۔
انھوں نے اس ملاقات کے آغاز میں رجب کے مہینے کو سال کے سب سے بافضیلت ایام بتایا اور تمام لوگوں اور مومنین کو اس عظیم نعمت الہی اور اس کی زبردست دعاؤں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے نیز توبہ و استغفار کی سفارش کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ کے مسئلے اور غزہ کے عوام کے صبر و استقامت کی طرف اشارہ کیا اور اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ آج غزہ کے بین الاقوامی مسئلے میں دست خداوندی نمودار اور قابل مشاہدہ ہے، کہا کہ غزہ کے مظلوم اور طاقتور عوام، دنیا کو اپنی جدوجہد سے متاثر کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور آج دنیا ان لوگوں اور ان کے مزاحتمی گروہوں کو، ہیرو کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
انھوں نے دنیا کی نظروں میں غزہ کے عوام کی مظلومیت اور ساتھ ہی ان کی فتح کو ان کے صبر اور توکل کا پھل اور برکت بتایا اور کہا کہ اس کے مقابلے میں آج دنیا میں کوئی بھی جنگ میں غاصب اور خبیث صیہونی حکومت کی فتح کو تسلیم نہیں کرتا اور دنیا بھر کے لوگوں اور سیاستدانوں کی نظر میں یہ حکومت، ظالم، بے رحم، بھیڑیا صفت، شکست خوردہ اور تباہ ہونے والی ہے۔
انھوں نے دنیا کی نظروں میں غزہ کے عوام کی مظلومیت اور ساتھ ہی ان کی فتح کو ان کے صبر اور توکل کا پھل اور برکت بتایا اور کہا کہ اس کے مقابلے میں آج دنیا میں کوئی بھی جنگ میں غاصب اور خبیث صیہونی حکومت کی فتح کو تسلیم نہیں کرتا اور دنیا بھر کے لوگوں اور سیاستدانوں کی نظر میں یہ حکومت، ظالم، بے رحم، بھیڑیا صفت، شکست خوردہ اور تباہ ہونے والی ہے۔
انھوں نے کہا کہ غزہ کے لوگوں نے اپنی استقامت سے دنیا کے متلاشی انسانوں کی نگاہوں میں اسلام کی ترویج کی اور قرآن مجید کو مقبول بنا دیا ہے اور ہم خداوند عالم سے استقامتی محاذ بالخصوص غزہ کے عوام اور مجاہدین کے لیے روز افزوں سربلندی کی دعا کرتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح غزہ کے عوام کی پشت پناہی میں یمنی قوم اور انصار اللہ کی حکومت کے عظیم کارنامے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یمن کے لوگوں نے صیہونی حکومت کی حیاتی شریانوں پر وار کر دیا اور وہ امریکا کی دھمکی سے نہیں ڈرے کیونکہ اللہ سے ڈرنے والا انسان کسی دوسرے سے نہیں ڈرتا اور ان کا یہ کام واقعی، اللہ کی راہ میں جہاد کا مصداق ہے۔
انھوں نے امید ظاہر کی کہ خداوند عالم کی مرضی سے یہ مجاہدت، استقامت اور جدوجہد، فتح تک جاری رہے گی اور اللہ تعالیٰ ان سبھی کو اپنی مدد و نصرت عطا کرے گا جو اس کی مرضی کی راہ میں قدم بڑھا رہے ہیں۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں امامت جمعہ کو انتہائي مشکل کاموں میں سے ایک بتایا کیونکہ امام جمعہ کو خدا کی طرف بھی متوجہ رہنا ہوتا ہے اور اس کی مرضی کو اپنا ہدف بنانا ہوتا ہے اور ساتھ ہی عوام کے مفادات اور ان کی رضامندی کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔
انھوں نے نماز جمعہ میں لوگوں پر دی جانے والی خاص توجہ کو اسلام میں عوام کی کلیدی پوزیشن کی نشانی بتایا اور کہا کہ اسلامی نظام میں عوام کا کردار اور ان کا حق اس طرح کا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کے بقول اگر لوگ نہ چاہیں اور نہ آئیں تو ان کے جیسے صاحب حق شخص کی ذمہ داری بھی ساقط ہے لیکن اگر لوگوں نے چاہا تو ذمہ داری قبول کرنا، اس پر واجب ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح ملکی اور عالمی واقعات، دشمن کی سازشوں اور منصوبوں اور سماج کی ضروریات و حقائق سے لوگوں کو آگاہ کرنے کو نماز جمعہ کے خطبوں کی لازمی باتوں میں قرار دیا۔
انھوں نے جمعے کے خطبے بیان کرنے کے لیے ضروریات کی تشخیص اور سامعین کی شناخت پر زور دیتے ہوئے آج کے جوانوں کے ذہنوں کی مختلف قسم کی باتوں اور پروپیگنڈوں کی آماج گاہ بننے کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ ضروریات کی تشخیص اور سامعین کے ذہن کی صحیح شناخت کے لیے امام جمعہ کا لوگوں کے ساتھ رہنا اور ان کے ساتھ گھلنا ملنا ضروری ہے۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے امامت جمعہ کی اہم ذمہ داری کی ادائيگی کے لیے عوام الناس سے ہمدردی اور ان سے پیار کو بھی لازمی قرار دیا۔
انھوں نے ایرانی عوام کی بے مثال خصوصیات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ہمارے عوام، بڑے اچھے اور مومن ہیں اور جو لوگ بعض ظاہری باتوں کی عملی پابندی نہیں کرتے ان کا دل بھی خدا کے ساتھ اور روحانی امور کی طرف متوجہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بدخواہوں کے طرح طرح کے حملوں کے مقابلے میں ایران اور اسلامی نظام کے دفاع کے مختلف میدانوں میں موجودگی کے لیے تیاری اور وفاداری کو ایرانی عوام کی ایک اور نمایاں خصوصیت بتایا اور کہا کہ جب بھی ملک اور انقلاب کو دفاع کی ضرورت پڑی ہے ہمارے عوام نے سڑکوں پر آ کر صبر اور حمایت کا مظاہرہ کیا یہاں تک کہ جنگ کے میدان میں جا کر اپنی وفاداری بھی دکھائی ہے۔
انھوں نے انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، انتخابات میں شرکت کو، قانون بنانے اور نافذ کرنے والوں کے انتخاب کے لیے عوام کا حق بتایا۔
آپ کا تبصرہ