12 نومبر، 2023، 5:14 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

غزہ کے صحافی حسن اصلیح، صہیونیوں کے لئے ڈراونا خواب

غزہ کے صحافی حسن اصلیح، صہیونیوں کے لئے ڈراونا خواب

غزہ میں صہیونی حکومت صحافتی دہشت گردی کرتے ہوئے ان صحافیوں کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کررہی ہے جو اپنے کیمرے اور قلم کی طاقت سے صہیونیوں کے مظالم کی داستانیں دنیا کو سنارہے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی_ بین الاقوامی ڈیسک؛ غزہ میں فلسطینی عوام کی نسل کشی اور قتل عام کا دوسرا مہینہ شروع ہوا ہے۔ اس دوران صہیونی حکومت نے دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سویلین کے ساتھ درجنوں صحافیوں کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران نشانہ بنایا ہے۔

صہیونی حکومت کی جانب سے میڈیا کے نمائندوں اور صحافیوں پر حملہ اگرچہ ان دنوں عروج پر ہے اور پوری دنیا صہیونی حکومت کی صحافتی دہشت گردی کی عینی گواہ ہے لیکن اس حکومت کی میڈیا کے ساتھ جارحانہ رویہ تاریخی ہے اور مختلف ادوار میں صحافیوں پر اسرائیلی حکومت کے حملے ہوتے رہے ہیں۔

اس کا ایک نمونہ دو سال پہلے سامنے آیا جب فلسطینی یوم النکبۃ کے موقع پر صہیونی حکومت نے صحافیوں کے ساتھ جارحانہ سلوک کیا۔ اس وقت غزہ کی 13 منزلہ عمارت الجلاء کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جس میں بیرونی خبرنگار رہتے تھے اور غزہ کی صورتحال سے دنیا کو آگاہ کرتے تھے۔

برج الجلاء میں الجزیرہ، ایسوسی ایٹڈ پریس اور اے ایف پی جیسے بین الاقوامی اداروں کے دفاتر موجود تھے۔ علاوہ ازین اس عمارت میں طبی مراکز اور دیگر اداروں کے دفاتر اور رہائشی مکانات بھی موجود تھے۔

مبصرین برج الجلاء جیسی عمارتوں پر صہیونی حکومت کے حملوں کا مقصد دنیا کو غزہ اور فلسطین کے دیگر علاقوں کی خبریں پہنچانے کی کوششوں کو ناکام بنانے اور میڈیا کو لگام دینے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں غزہ میں واقع برج حجی کو صہیونی فورسز نے نشانہ بنایا ہے جس میں میڈیا کے کئی افراد شہید اور زخمی ہوگئے ہیں۔

حالیہ سالوں میں کئی مرتبہ غاصب صہیونیوں نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے جن میں الجزیرہ ٹی وی کی خاتون نامہ نگار شیرین ابوعاقلہ، غفران ہارون اور احمد ابوحسین شامل ہیں جن کو غزہ میں فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔

اس سے پہلے 2014 میں اٹلی سے تعلق رکھنے والے صحافی سیمونہ کاملی کو صہیونیوں نے دنیا کو خبروں سے آگاہ کرنے کے جرم میں قتل کردیا تھا۔ یہ سلسلہ صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ اسرائیل کے اندر بھی کئی صحافی سچ کو سامنے لانے کے جرم میں قتل کئے گئے ہیں۔

فلسطینی ذرائع ابلاغ کے مطابق 2000 کے بعد سے اب تک 45 صحافی صہیونی حکومت کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر صہیونی حکومت کی مذمت کی جاتی ہے اور مشرق وسطی اور شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی نے صحافیوں کو غیر مسلح شہری قرار دیتے ہوئے جنگ میں نشانہ بنانے سے منع کیا ہے۔ لیکن غزہ میں صہیونی حکومت کے ہاتھوں صحافیوں کا وحشیانہ قتل عام جاری ہے۔ محمد ابوحصیرہ اس سلسلے کے آخری شہید ہیں جن کو غزہ کے رہائشی علاقے میں صہیونی حکومت نے حملہ کرکے شہید کردیا۔

ابوحصیرہ کو شامل کرنے کے بعد طوفان الاقصی کے بعد شہید ہونے والوں کی تعداد 49 ہوگئی ہے اس سے ایک روز پہلے محمد الجاجہ کو بھی النصر محلے میں غاصب فورسز نے حملہ کرکے شہید کردیا تھا۔

اگرچہ صہیونی حکومت مجموعی طور پر میڈیا کے نمائندوں کی عمارتوں اور رہائش گاہوں کو نشانہ بناتی ہے۔ تاہم اس شعبے میں فعال صحافی حسن اصلیح جیسوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنارہی ہے جو ملسل اور تھکن کے بغیر خبریں دنیا تک سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچاتے ہیں۔

اصلیح ہر روز غزہ کی پٹی پر رونما ہونے والے واقعات کی کوریج کرتا ہے۔ ایک صحافی جو عکاسی سے محبت کرتا ہے۔ وہ 2009 کے بعد قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان کا نام روشن ہوگیا تھا۔
اصلیح سوشل میڈیا پر بھی فعال ہے۔ انسٹاگرام پر اس کے پانچ لاکھ فالوورز ہیں جن میں غزہ کے رہائشیوں کی اکثریت ہے۔ انسٹاگرام کے صفحے پر فلسطین کے واقعات پر مشتمل ہزاروں تصاویر موجود ہیں۔ غزہ کی جنگ کے بعد ان کے صفحے کا مطالعہ کرنے والوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

انسٹاگرام کے علاوہ وہ ایکس (سابق ٹوئیٹر) پر بھی فعال ہیں جہاں پانچ لاکھ افراد اس کو فالو کرتے ہیں۔ اس صفحے پر بھی اصلیح غزہ میں ہونے والے واقعات کو کوریج کرتے ہیں۔

صہیونی حکومت نے غزہ کے بارے میں دنیا تک معلومات پہنچانے والے اصلیح کو خاموش کرنے کی کوشش کی شروع کی ہے جس طرح دوسرے فلسطینی صحافیوں کے ساتھ کیا گیا۔ صہیونی سوشل میڈیا کے اس فعال صارف کی تصاویر کو حماس کے رہنما یحیی السنوار کے ساتھ میڈیا پر دے رہے ہیں۔ 

حسن اصلیح نے بھی صہیونی حکومت کی اس سازش کو لے کر اپنے انسٹاگرام کے صفحے پر کمپین شروع کیا ہے۔ انہوں نے صہیونی حکومت کی جانب سے خود کو ٹارگٹ بنانے کی سازش کو بھانپ کر تاکید کی ہے کہ غزہ میں صہیونی حکومت کی جانب سے صحافیوں پر حملہ شدت اختیار کرسکتا ہے۔

سی این این سے حسن اصلیح کو بے دخل کرنے کا ماجرا یحیی السنوار کو بوسہ دیتے ہوئے تصویر شائع کرنا بتایا جاتا ہے لیکن حقیقی ماجرا کچھ اور ہے وہ یہ کہ غزہ کے واقعات کو وسیع پیمانے پر سوشل میڈیا پر کوریج کرنے کے جرم میں ان کو نکالا گیا ہے۔

یہ فلسطینی صحافی اور عکاس چند ہفتے پہلے تک سی این این کے لئے کام کرتا تھا لیکن اب ان کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے جس طرح بی بی سی نے بھی کئی دیگر فلسطینی صحافیوں کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران برطانوی ادارے نے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجتہی کے جرم میں 16 ملازمین اور صحافیوں کو ادارے سے بے دخل کردیا ہے۔

News ID 1919960

لیبلز