8 نومبر، 2023، 3:45 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

یہ بیروت ہے، مزاحمت کا گہوارہ

یہ بیروت ہے، مزاحمت کا گہوارہ

بیروت شہر میں لبنانیوں کے ساتھ گفتگو کے دوران میں نے اس حقیقت کو قریب سے لمس کیا کہ وہ اپنے قائد سید حسن نصر اللہ کی ہدایات پر ثابت قدمی کے ساتھ اس حد تک عمل پیرا ہیں کہ بیروت کو مزاحمت کا گہوارہ سمجھا جا سکتا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی - بین الاقوامی ڈیسک: فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے الاقصیٰ طوفانی آپریشن کو ایک مہینہ گزر گیا ہے جس سے صیہونیوں کو حیران کن سیکورٹی، انٹیلی جنس اور فوجی شکست کا سامنا کرنا، تاہم اب خطے کے حالات ماضی سے یکسر مختلف ہو گئے ہیں۔

ان دنوں ہم ایک بار پھر صیہونی جنگی مجرموں کے ہاتھوں بے گناہ فلسطینیوں بالخصوص غزہ کے عوام کے قتل عام میں شدت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ 

فلسطینی بے گناہ لوگوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام چاہے کتنا ہی عرصہ جاری رہے، اس سے الاقصیٰ طوفان آپریشن میں صہیونیوں کی سیکورٹی، انٹیلی جنس اور فوجی شکست کی تلافی نہیں ہو گی۔

بیروت ہوائی اڈے میں!

اس ہفتے کے دوران، مجھے جنگ کی تازہ ترین صورت حال کے جائزہ مشن پر لبنان بھیجا گیا۔ جو مسافر پہلی بار بیروت آتے ہیں، ان کا سامنا پہلی بار ایک ایسے کمپیکٹ اور پورٹیبل ہوائی اڈے سے ہوتا ہے جو شاید امام خمینی بین الاقوامی ہوائی اڈے (رح) کے ٹرمینل جتنا بڑا نہ ہو۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے ہوائی اڈوں کے برعکس، بیروت کے رفیق حریری بین الاقوامی ہوائی اڈے کو شہر کا داخلی حصہ سمجھا جاتا ہے جسے چھوڑنے کے بعد آپ خود کو بیروت کی اتنی زیادہ ٹریفک میں نہیں پائیں گے۔

یہ بیروت ہے، مزاحمت کا گہوارہ

لبنان مجموعی طور پر آٹھ مختلف صوبوں پر مشتمل ہے جن میں سے بیروت اہم ترین اور ان صوبوں کا دارالحکومت ہے۔ 

اہم بات یہ ہے کہ بیروت شہر میں فلسطینی پناہ گزینوں کے 5 کیمپ ہیں جو ایک عرصے سے فلسطینی پناہ گزینوں کے مہمان ہیں جن میں برج البراجنہ کیمپ سب سے بڑا ہے۔

بڑے پیمانے پر بلیک آؤٹ اور ہو کا عالم

ایران میں ہم میں سے جو لوگ آدھے گھنٹے تک بجلی کی بندش سے تنگ آچکے ہیں ان کے لیے ان دنوں بیروت کے حالات قابل برداشت نہیں ہیں۔ لبنان میں جاری معاشی بحران اور یقیناً حالیہ برسوں میں امریکہ کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے لبنان کے دارالحکومت میں بلیک آؤٹ (لائٹ نہ ہونا) بہت زیادہ دیکھا گیا ہے جو پہلی نظر میں آپ کے لیے حیران کن ہوگا۔

بیروت کے رہائشیوں کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں ہمیں معلوم ہوا کہ اس شہر میں لائٹ کے اوسط اوقات روزانہ دو گھنٹے تک پہنچتے ہیں اور اس کا باقی حصہ ہر گھر، دکاندار یا کمپنی کے مالک کو جنریٹرز کے استعمال کے ذریعے پورا کرنا پڑتا ہے۔

یہ بیروت ہے، مزاحمت کا گہوارہ

 بیروت میں اندھیرا چھانے کے بعد، آپ اس صورتحال کو زیادہ سے زیادہ دیکھیں گے، بعض گھروں اور تجارتی جگہوں پر انہی جنریٹرز کی سرگرمی کی وجہ سے روشنی میسر ہے۔

یقیناً آپ میں سے جو لوگ ہوٹل سے شہر کے اہم مقامات پر جاتے ہیں ان کے لیے یہ مسئلہ کم قابل توجہ ہو سکتا ہے، کیونکہ ہوٹل اور شہر کے اہم مقامات اپنی بجلی طاقتور جنریٹرز کے فراہم کرتے ہیں۔ 

لبنان میں فلسطین کے حامی 18 قبیلے

لبنان میں شیعہ، سنی اور عیسائیوں کے پرامن بقائے باہمی کی مثال زبان زد عام ہے۔

 لبنان میں کل 18 مختلف قبیلے اور فرقے ایک ساتھ رہتے ہیں جیسے شیعہ، سنی، مارونی عیسائی، دروزی، آرتھوڈوکس عیسائی وغیرہ جو کہ مجموعا 18 مختلف قبائل بنتے ہیں۔

یہ بیروت ہے، مزاحمت کا گہوارہ

اب اس رپورٹ کے اصل موضوع یعنی مسئلہ فلسطین اور غزہ کی جنگ کے جائزے کی طرف آتے ہیں۔

اس حوالے سے بیروت کے لوگوں سے پوچھیں تو آپ کو یہ حقیقت معلوم ہو جائے گی کہ لبنان میں موجود تمام 18 مختلف قبائل مسئلہ فلسطین کی حمایت کرتے ہیں اور ان دنوں غزہ پر صیہونی جارحیت اور جنگی جرائم کے خلاف شدید احتجاج کر رہے ہیں۔ 

مثال کے طور پر مارونائی عیسائی قبیلہ بھی فلسطینیوں کا حامی ہے البتہ اس قبیلے کے تمام اراکین حمایت نہیں کرتے اور سمیر جعجع جیسی شخصیات جو اس قبیلے اور حزب قوات لبنان کے سربراہ ہیں لیکن مسئلہ فلسطین کی بہت زیادہ مقبولیت کی وجہ سے وہ بہت سے معاملات میں ان تنازعات کو عام کرنے کی جرأت بھی نہیں کرتے۔

حماس کی بے پناہ مقبولیت

یہ کہا جا سکتا ہے کہ لبنان میں فلسطینی مزاحمت کے تناظر میں اگر ہم فلسطینی گروہوں کی مقبولیت کے رجحانات کی ایک خاص درجہ بندی کرنا چاہتے ہیں، تو ہم فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کو ان کی کوششوں میں سرفہرست دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد اسلامی جہاد تحریک کو لبنان میں سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے اور تحریک فتح اور پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین بھی اگلی صفوں میں ہیں۔

مجموعی طور پر حالیہ دہائیوں میں لبنان میں تقریباً 50 فلسطینی جماعتیں اور دھارے موجود ہیں اور ان سب میں سے صیہونی غاصبوں کے خلاف مزاحمت کے آپشن کی حمایت کرنے کے طریقہ کار پر سنجیدگی سے عمل کیا گیا ہے اور ان کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں دیکھا جا سکتا۔

قابل ذکر ہے کہ لبنان میں الفتح تحریک یا فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے ارکان فلسطین کے اندر اس تحریک اور تنظیم کے بعض رہنماؤں کے نقطہ نظر کے برعکس جو سمجھوتے کے آپشن کی حمایت کرتے ہیں، مزاحمت کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور ان میں صیہونیوں کے ساتھ سمجھوتہ اور امن کا رجحان دکھائی نہیں دیتا۔

بیروت مزاحمت کا گہوارہ

میری بیروت آمد نے مجھے اپنے بچپن کی وہ یادیں تازہ کر دیں جب میں اس ملک میں تھا۔ 

بے شک، گزشتہ دو دہائیوں میں بیروت میں بہت سی چیزیں بدلی ہیں۔ لیکن جو چیز اب بھی جوان ہے اور یہاں تک کہ مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہے وہ لبنان اور بیروت کے عوام کی مزاحمت کا جذبہ ہے۔

یہ بیروت ہے، مزاحمت کا گہوارہ

میں نے لبنانیوں کے ساتھ شہر میں ہونے والی گفتگو میں یہ حقیقت محسوس کی کہ لبنانی عوام اپنے لیڈر سید حسن نصراللہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بیروت ان دنوں مزاحمت کا گہوارہ ہے۔

شہر میں ہر جگہ مزاحمت کے استعارے نظر آتے ہیں

بیروت شہر میں چہل قدمی کے دوران، آپ لاشعوری طور پر تصور کرتے ہیں کہ آپ اسلامی جمہوریہ ایران کے شہروں میں چل رہے ہیں۔ ملتے جلتے ناموں والی سڑکیں اور یقیناً مزاحمت کا ماحول جو آپ کے وطن سے دوری کے غم کو بھلا دے گا۔

شاہراہ شیہد چمران ، شاہراہ امام خمینی ، شاہراہ شیہد قاسم سلیمانی وغیرہ بیروت کی تمام اہم سڑکیں ہیں جن کا نام انقلاب اسلامی اور مزاحمت کے عظیم کرداروں کے نام پر رکھا گیا ہے۔

 حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد بیروت کے علاقے برج البراجنہ میں ایک اہم شاہراہ میں شہہد قدس کی یاد میں ایک یادگار دیوار بنائی گئی ہے جو شہید قاسم سلیمانی کی مختلف تصاویر سے مزین ہے۔ 

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ بیروت میں رہنے والے ایک ایرانی نے ہمیں بتایا کہ یہ دیوار جو بیروت کے مصروف علاقوں میں سے ایک میں واقع ہے اور جو بھی اس شہر میں داخل ہو گا وہ ایک بار اس کے سامنے سے ضرور گزرے گا۔

 ہمیں اس دیوار نے تہران کے ولی عصر اسکوائر میں قائم دیوار نگار کی یاد دلائی

 لبنان کا سرحدی محاذ کھول دیا جائے تو صیہونیوں کی شکست یقینی ہے۔لبنانی نوجوان

بیروت میں ساحل کے قریب واقع اوزاعی کے نام سے مشہور اس علاقے میں گھومتے ہوئے میں نے کچھ لبنانی نوجوانوں سے بات کرنا شروع کی تو انہوں نے غزہ جنگ اور الاقصی طوفان آپریشن کے بارے میں لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی حالیہ تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے بڑے جوش و خروش کے ساتھ کہا کہ صیہونی حکومت لبنان پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں رکھتی، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اگر لبنان کا سرحدی محاذ دوبارہ کھول دیا جائے تو یمن، عراق، اردن، مصر، ایران، شام وغیرہ سمیت اسلامی ممالک کے مختلف علاقوں سے مجاہدین لبنان میں آکر صیہونیوں کے ساتھ براہ راست جنگ میں مصروف ہوجائیں گے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ لبنانی محاذ کو دوبارہ کھولنے اور اس جنگ میں شرکت کے لئے بے چینی سے لمحات گن رہے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ اس جنگ میں بھی صیہونی رجیم کو محور مقاومت کے خلاف اپنی سابقہ ​​جنگوں کی طرح رسوا کن شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

News ID 1919884

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha