مہر خبررساں ایجنسی نے المعلومہ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ عراق کے الفتح اتحاد کے سربراہ علی حسین نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ذریعے ہندوستانی بندرگاہوں کو خلیج فارس سے ملانے کا امریکی منصوبہ پیش کیا جارہا ہے جس کا مقصد سعودی عرب کے چین کے ساتھ مضبوط ہوتے تعلقات کو نقصان پہنچانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: امریکہ سعودی عرب کے ذریعے خطے میں اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے، یہ ملک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مجوزہ راہداری منصوبے کی حمایت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سعودی عرب بھی اپنے مفادات کے حصول کے لئے عرب ممالک کے ساتھ تعقات پر اتنی توجہ نہیں دیتا جتنی امریکہ کے ساتھ پینگیں بڑھانے پر دیتا ہے۔
عراق کے پاس ایران کے ساتھ ریلوے لائن کے ذریعے ترکی اور چین کے ساتھ شاہراہ ریشم اور مشرقی مغربی رابطے کے حوالے سے مختلف آپشنز ہیں۔
الفتح اتحاد کے اس سینئر رکن نے کہا: سعودی عرب کے اس منصوبے کو پیش کرنے کی ایک اہم وجہ مستقبل میں حاصل ہونے والی مالی آمدنی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے نہر سویز کے بجائے بھارت سے خلیج فارس اور وہاں سے مقبوضہ فلسطین اور یورپ تک ٹرانزٹ روٹ بنانے کا منصوبہ تجویز کیا ہے تاکہ علاقائی ممالک کی معاشی ترقی کا راستہ روک سکے۔
اس راہداری منصوبے نے سوشل میڈیا میں معاشی اثرات اور کوریڈور کے راستے میں پڑنے والے ممالک کے انتخاب کے معیار کے حوالے سے ردعمل کی لہر بھی پیدا کر دی ہے۔
بظاہر مذکورہ راہداری ہندوستانی بندرگاہوں کو حیفہ بندرگاہ اور وہاں سے یورپ تک جوڑنے کا صہیونی منصوبہ ہے۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بھی کہا ہے کہ ریلوے کوریڈور میں ہندوستان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن، اسرائیل اور یورپی یونین شامل ہوں گے، اس منصوبے کو امریکی صدر جو بائیڈن نے "واقعی بڑا منافع" قرار دیا ہے۔
دوسری طرف تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تل ابیب اس کارروائی کو شمالی-جنوبی بین الاقوامی راہداری میں ایران کے اقتصادی مفادات کو زک پہنچانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
شمال جنوب راہداری 2000ء میں بھارت، ایران اور روس کے معاہدے کے بعد کھول دی گئی تھی جو چین کے ون بیلٹ پروجیکٹ کی طرز پر ایران اور روس کا اقدام تھا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نارتھ-ساؤتھ کوریڈور کی گرتی قدر اور یوکرین جنگ کے اثرات کے باعث ہندوستان، مشرق وسطیٰ _ یورپ کوریڈور کو شمال-جنوب کوریڈور سے بدلنا چاہتا ہے۔
لیکن اس منصوبے میں جس نکتے کو یکسر انداز کر دیا گیا وہ ایران کے اس راہداری سے اخراج کی صورت میں اس کے نفاذ کا مخدوش ہونا ہے۔ اس صورت میں ٹرانزٹ روٹ کا ایک حصہ بحر ہند میں آئے گا۔ تاہم اس راہداری کے لیے بہت بڑے سرمائے کی بھی ضرورت ہے، جس میں سعودی عرب کی بطور مالیاتی بازو شرکت کے بغیر اس کی مالی اعانت ممکن نہیں۔ لیکن سعودی عرب اس میں اس شرط پر شرکت کر سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے امریکہ اور صیہونی حکومت کو سعودی عرب کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کی شرط قبول کرنی ہوگی۔
آپ کا تبصرہ