مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے دار الحکومت تہران میں اس ہفتے کی نماز جمعہ کی امامت آیت اللہ کاظم صدیقی نے کی۔ انہوں نے اپنے خطبوں میں حالیہ دنوں کی مختلف اہم مناسبتوں، ایران کے حالات اور عالمی صورتحال پر گفتگو کی۔
آیت اللہ کاظم صدیقی نے کہا کہ دی کے مہینے ﴿دسمبر، جنوری﴾ میں اہم واقعات رونما ہوئے ہیں جو اسلامی انقلاب کی تاریخ میں بہت زیادہ نمایاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 19 دی ﴿9 جنوری 1978﴾ کے دن کا واقعہ اور قم کے لوگوں کا قیام اسلامی انقلاب کا سب سے اہم تاریخی موڑ ہے۔ اس واقعے نے انقلاب میں قم کے لوگوں کی مرکزی حیثیت کو ظاہر کیا اور انقلاب کی تحریک کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ 9 دی (30دسمبر 2009) بھی ایک یادگار دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ہمارے عوام نے ایک مرتبہ پھر انقلاب اور اسلامی نظام سے اپنے عہد وفا کی تجدید کی اور دین کے احیا اور شہدا کے مقاصد کی کامیابی کا دن ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے عوام کی میدان عمل میں بروقت موجودگی سے دشمن کو ناکام بنایا جو انتخابات میں دھاندلی کے بہانے انقلاب اور اسلامی اقدار کو ختم کرنے کے لئے میدان میں اترا تھا۔
2004 کے یوکرین کے صدارتی انتخابات کے بعد یوکرین میں اورنج انقلاب کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2009 کے فسادات میں ایرانی دشمنوں نے انتخابی دھاندلی کے بہانے حکومت کی سمت تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ 2004 کے انتخابات میں یوکرین میں بالکل ایسا ہی ہوا تھا۔
آیت اللہ صدیقی نے مزید کہا کہ 2009 کے فتنے اور حالیہ فسادات میں دشمن کی کوشش تھی کہ دین اور سیاست کے رشتے کو ختم کردے، وہ چاہتے تھے کہ دینی انتظامیہ اور معاشرے میں عوام کی مرضی کی بالادستی اور دینی جمہوریت کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ دینی جمہوریت وہ راستہ ہے جس کی پیدائش سے عالمی استکبار ایران کے ذخائر کی لوٹ مار سے محروم ہوگیا اور دینی جمہوریت کی ثقافت کو دیگر ملکوں میں بھی فروغ ملا۔
تہران کے عبوری خطیب نے کہا کہ یہ ثقافت سرحدیں عبور کر کے دنیا کے گوش و کنار میں پہنچ گئی اور استکبار کے خلاف قیام اور جہاد کے مسئلے کی ترویج کرنے لگی۔ لہذا عالمی استکبار اپنی تمام تر قوت کے ساتھ اس نوزائیدہ قوت کے مقابلے میں آگیا، وہ نوزائیدہ قوت جس نے دنیا والوں کے سامنے اسلام ناب محمدی ﴿ص﴾ کو پیش کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی انقلاب اللہ تعالیٰ کی قدرت کی تجلی تھا۔ مشرق و مغرب کی تمام بڑی طاقتیں اپنے تمام تر پیچیدہ تجربات کے ساتھ اس نکتے پر مرکوز ہوگئی تھیں کہ یہ انقلاب جنم نہ لے تاہم خدا کی مشیت سے وہ اس انقلاب کی پیدائش نہ روک سکے۔
آیت اللہ کاظم صدیقی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ پیدائش کے بعد دشمن نے کوشش کی کہ اسے ابتدا میں ہی ختم کردیا جائے۔ لہذا مختلف نوعیت افراتفری اور نسلی فسادات اور جنگیں شروع کی گئیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، لیکن چونکہ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں سے اوپر ہے، یہ تمام فسادات اور جنگیں اپنے انجام کو پہنچتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس جو کچھ بھی تھا اسے ہمارے خلاف استعمال کرتے رہیں اور اب بھی کر رہے ہیں لیکن ہمشیہ ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں ہمیشہ شیطانی قوتوں کو ذلت آمیز شکست ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دشمن سالوں اپنے تھنک ٹینکس میں سوچتا رہا اور منصوبہ بندی کرتا رہا تا کہ ہمارے ملک میں سبز انقلاب لا سکے۔ ان کے سامنے تہران یونیورسٹی میں پیش آنے والا ایک مختصر سا تجربہ تھا، اس مرتبہ ﴿۲۰۰۹﴾ انہوں نے گزشتہ تجربات کا جائزہ لیا اور سوچا کہ سبز انقلاب برپا کر کے عوام کو عوام کے سامنے لاکھڑا کریں گے، اس طرح بیرونی حملہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ تاہم تہران اور بعض صوبوں میں آٹھ مہینے کی افراتفری اور بدامنی کے بعد عوام نے 9 دی ﴿30 دسمبر﴾ کے دن اس فتنے کی آگ کو بجھادیا اور اپنے طور پر ملک بھر میں سڑکوں پر نکل آئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 9 دی کا قیام ایک عوامی بیداری اور عالمی استکبار اور بیرونی منصوبوں کے خلاف ایک ہمہ گیر قیام تھا۔
آیت اللہ کاظم صدیقی نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے ایام کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ شہید سلیمانی ایک فرد کا نام نہیں بلکہ وہ ایک فکر، ایک تحریک اور ایک مکتب تھے۔ وہ دنیا کے مظلوموں کے رول ماڈل اور غیرت، روحانیت، شہامت، شجاعت اور دینداری کا اکسیر تھے۔ اس کے باوجود کہ وہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ لوگوں کے سامنے آئیں اللہ تعالیٰ نے انہیں پوری دنیا والوں کو متعارف کروایا۔
انہوں نے کہا کہ شہید سلیمانی کی ایک خصوصیت جس نے انہیں نہ صرف ایک شخصیت بلکہ ایک توحیدی تحریک میں تبدیل کردیا، ان کا اخلاص تھا۔ یہ ہمارے لئے ایک بڑا درس ہے، اللہ کے لئے کام کریں اللہ تعالیٰ بھی ہماری مدد کرے گا۔ ان کی ایک خصوصیت ولایت پر پختہ ایمان اور اس کی فرمانبرداری تھی۔ ان کے تمام کام سیاسی یا ڈپلومیٹیک نہیں ہوتے تھے بلکہ عقیدے، عشق اور گہرے ایمان کی بنیاد پر ہوتے تھے۔
تہران کی نماز جمعہ کے خطیب نے کہا کہ جس طرح رہبر انقلاب اسلامی نے بارہا تاکید کی ہے کہ آج کا شہید سلیمانی استکبار کے لئے زیادہ خطرناک ہے اور اس کی مقاومت کے محاذ کے لئے حمایت کل کے جنرل قاسم سلیمانی سے زیادہ موثر ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہید سلیمان نے نہ صرف عراق، شام اور لبنان کی مدد کی بلکہ فلسطین کو بھی مدد فراہم کی۔ اگر حالیہ جھڑپوں میں سات سو سے زیادہ غاصب صہیونی ہلاک ہوئے ہیں، اگر صہیونی حکام شدید خوف و ہراس میں مبتلا ہیں، اگر حزب اللہ آج ایک طاقت شمار ہوتی ہے، اگر یمن میں مقاومت نظر آتی ہے، اگر عراق جو کل امریکی بوٹوں تلے روندا جا رہا تھا، آج امریکیوں کو باہر نکال رہا ہے، آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی قیادت اور شہید سلیمانی کی ہوشمندانہ کمانڈنگ کی وجہ سے ہے۔
آیت اللہ صدیقی نے مزید کہا کہ اس شجاعت اور بصیرت کو دنیا والوں پر ثابت کیا گیا۔ یہ پاکیزہ خون اب بھی جوش مار رہا ہے۔ ہمارے عوام امریکہ کو گھٹنے ٹیکانے اور مستکبروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے تک جنرل سلیمانی کی راہ پر گامزن رہیں گے۔
آپ کا تبصرہ