مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے صوبہ مرکزی کے چیف جسٹس حجة الاسلام عبد المہدی موسوی نے صوبے کے مرکز اراک میں فوت ہونے نوجوان فرشاد شہیدی پور کی ہلاکت کی وجہ کے بارے میں کہا کہ طبی معائنہ کاروں کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ نوجوان پر گولی لگنے یا سر پر کسی سخت چیز کی ضربت کا سرے سے کوئی احتمال ہی نہیں ہے۔ اسی طرح مرحوم کے کے ہاتھ پاوں یا سر پر کسی قسم کی شستگی یا مغز میں خون جاری ہونے کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے۔
صوبے کے چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ نوجوان کی لاش کا معائنہ اور شواہد کی دستاویز کی تیاری اس کے اہل خانہ کی موجودگی میں میں انجام دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس سے پہلے صوبہ اراک کے گورنر کے سیاسی، سلامتی اور سماجی امور میں معاون نے بھی کہا تھا کہ ۲۰ سالہ نوجوان فرشاد شہیدی پور نے بدھ کر رات کو اراک ہونے والے مظاہروں میں شرکت کی تھی اور اس موقع پر ہلاک ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوان کی شناخت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اگلے روز جب اس کے والدین نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ گزشتہ رات فوت ہوجانے والا نوجوان فرشاد شہیدی پور ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ نوجوان کی موت مظاہرات کے دوران واقع ہوئی ہے تاہم طبی رپورٹس کے مطابق اس کے سر اور جسم پر کسی قسم کے تشدد اور چوٹ کے آثار نہیں ہیں اور گولی لگنے کی بھی کسی صورت تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام رپورٹس نوجوان کے اہل خانہ کی موجودگی تیار کی گئیں اور انہیں دستاویز کی شکل دی گئی اور نوجوان کے دفن کا سرٹیفیکٹ بھی جاری کیا گیا۔
یاد رہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ اور ایران سے باہر سے آپریٹ ہونے والے فارسی زبان ذرائع ابلاغ پر نوجوان فرشاد شہیدی کی موت کی وجہ کو پولیس کے تشدد بتایا جارہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ نوجوان کی موت پولیس کے زد و کوب کرنے کی وجہ سے ہوئی ہے جبکہ ایرانی سرکاری ذرائع اور طبی معائنہ کاروں اور پوسٹ مارٹم رپورٹس سے کسی ایسی بات کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
آپ کا تبصرہ