12 اکتوبر، 2022، 2:48 PM

اتحاد عالم اسلام کے لئے ایک بنیادی حکمت عملی ہے/غاصب صہیونی حکومت عہد و میثاق نہیں سمجھتی، صدر رئیسی

اتحاد عالم اسلام کے لئے ایک بنیادی حکمت عملی ہے/غاصب صہیونی حکومت عہد و میثاق نہیں سمجھتی، صدر رئیسی

ایران کے صدر نے کہا کہ علما، دانشوروں اور تاریخ رقم کرنے والوں کا کردار بے مثال ہے اور آج اتحاد ہمارے لئے کوئی ٹیکٹک نہیں بلکہ ایک حکمت عملی اور اسٹریٹجی ہے۔

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے آج صبح ﴿بدھ ١۲ اکتوبر﴾ کو وحدت اسلامی کانفرنس میں شرکت کی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں میلاد مسعود پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ اور ولادت با سعادت امام جعفر صادق ﴿ع﴾ کی مبارک باد پیش کی اور کہا کہ اسلام کی جامعیت آج کے انسان کی تمام تر ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہے اور آج کا انسان خدا پر بھروسے، اپنے اوپر اعتماد اور دینی تعلیمات کے ذریعے اپنی سعادت کو یقینی بنا سکتا ہے۔
ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ یہ کانفرنس عالم اسلام میں اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات کے مابین دین اور دینی اقدار نامی عظیم سرمایے کے متعلق ایک مشترکہ تفہیم کا سبب بنتی ہے۔
صدر رئیسی نے کانفرنس کے شرکاء کو دعوت فکر دیتے ہوئے کہا کہ آپ غور کریں کہ دشمن کس مقام پر ہے اور کون سے حربے استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا امام خمینی ﴿رہ﴾ نے دین کے نام پر جس پرچم کو بلند کیا تھا، آج تمام مسلمانوں کے درمیان اور تمام خطوں میں ہر طرح کی بولی بولنے والوں کے درمیان اتحاد کا پرچم ہے۔ آج مسلمانوں میں بہت سے مشترکات پائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ مشترکات دین کے نام سے موسوم ایک عظیم اور تہذیبی طاقت پیدا کرسکتے ہیں اور آج کی دنیا کی تمام تہذیبوں کے سامنے سر اٹھا کر اعلان کرسکتے ہیں کہ ان کے پاس معاصر انسان کے طرز زندگی کے لئے ایک ماڈل ہے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ دین ایک پرائیوٹ مسئلہ ہے تاہم شہدائے اسلام کی برکت سے اسلامی بیداری پیدا ہوئی اور تمام مسلمان چاہتے ہیں کہ مسلمان بن کر زندگی گزاریں اور زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام کے مطابق عمل کیا جائے۔ دشمن کو بھی اسی بات کا خوف لاحق ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اور دنیا میں یکطرفہ پن کے آغاز پر جب مغربی تھنک ٹینکس کو یہ احساس ہوا کہ وہ واحد قوت جو مغربی غلبے اور تسلط پسند نظام کے سامنے سربلندی اور استقامت کا مظاہرہ کرسکتی ہے، صرف اسلام ہے تو اس بات نے انہیں مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے پر مجبور کیا۔
صدر رئیسی نے مزید کہا کہ انہوں نے منصوبہ بنایا کہ کیا کیا جائے کہ یہ عظیم طاقت دنیا میں بیداری کی لہر پیدا نہ کرسکے جس کی مرکزیت ایک دین شناس، اسلام شناس اور مرجع تقلید کی برکت سے اسلامی ایران میں قائم ہوئی تھی۔
آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ اسلامی ملکوں میں وابستہ حکومتوں اور میڈیا ایمپائر نے انتہا پسند اور تکفیری سوچ کو ترویج دیا اور مسلمانوں کے درمیان تفرقے اور دوریاں پیدا کیں تا کہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے ذہنوں میں تشویش ڈالنے، تکفیری گروہ بنانے اور قتل و غارت کا بازار گرم کرنے، مقدسات کی توہین، دنیائے اسلام اور عالم بشریت کی پہلی شخصیت یعنی پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ اور تمام مقدسات کی اہانت جیسے مقاصد حاصل کیے جائیں۔ یہ سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ علما، دانشوروں اور تاریخ رقم کرنے والوں کا کردار بے مثال ہے اور آج اتحاد ہمارے لئے کوئی ٹیکٹک نہیں بلکہ ایک حکمت عملی اور اسٹریٹجی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے رہبر امام خامنہ ای اس حکمت عملی پر ہمیشہ تاکید کرتے ہیں کہ آج عالم اسلام کا اتحاد ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس نگاہ کا نصب العین یہ ہے کہ جو کوئی بھی قلم، بیان، عمل اور ترک عمل کے ذریعے اتحاد و وحدت کے راستے پر عمل کرے اس نے مدد کی ہے جبکہ جو تفرقہ پیدا کرے تو وہ بلاشبہ دشمن کی حکمت عملی کے راستے پر چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج علما کی اہم ذمہ داری یہ ہے کہ بصیرت و معرفت کو پھیلائیں۔ آج ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اسلام کے مقام و عظمت اور دشمن کی ناتوانی کے متعلق آگاہی و شعور پھیلائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج دشمن اپنے تمام تر دعووں کے باوجود انتہائی ناتواں ہے۔ وہ خود کو منطق والا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں تاہم منطق و استدلال کو نہیں سمجھتے، حقائق کو سمجھ نہیں سکتے لہذا ان سے مقابلے کا راستہ ایستادگی اور مقاومت ہے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ جو لوگ خیال کرتے تھے کہ فلسطین کی نجات کا راستہ مذاکرات ہے، انہوں نے غلطی کی۔ صہیونی حکومت کے ساتھ سمجھوتے کی تحریک ناکام ہوچکی ہے اور اب مقاومت کی تحریک اور ثقافت کامیاب ہے۔ کیا شرم الشیخ، اسلو اور کیمپ ڈیوڈ کے شرمناک معاہدے نتیجہ خیز ثابت ہوئے؟ کیا صہیونی معاہدوں پر کاربند ہیں؟ وہ میثاق توڑنے والے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی حکومت عہد و پیمان نہیں سمجھتی، لہذا ان کے سامنے مقاومت و ایستادگی دکھانا ہوگی۔
صدر رئیسی نے کہا کہ ہم مقاومت کی حمایتکرتے ہیں اور ساتھ ہی دوسرے ملکوں سے تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں رکھے ہوئے ہیں۔ معاشی، ثقافتی، اجتماعی اور سیاسی معاملات میں مسلمان ہمارے لئے ترجیح رکھتے ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ بعض حکومتوں کا بحالی تعلقات صہیونی حکومت کے لئے سیکورٹی پیدا نہیں کرے گا، تعلقات کی یہ بحالی شاید کچھ سست عنصر افراد کے ساتھ ہوگی، مسلمان قوموں کے ساتھ نہیں۔ مسلمانوں نے تعلقات کی بحالی کو کبھی بھی قبول نہیں کیا اور نہ کریں گے۔
صدر رئیسی نے مسئلہ فسطین کو دیوار سے لگانے کی کوششوں کو «زہے خیال باطل» قرار دیا اور کہا کہ آج مسلمانوں کا پہلا مسئلہ یعنی فلسطین بدستور عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ظلم اور تکفیری دہشت گردوں سے مقابلہ اسلامی جمہوریہ کی اصلی ترجیحات میں سے ہے۔ دشمن کا اسلامی نظام سے کینہ بھی اسی وجہ سے ہے۔ دشمن دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دعویدار ہے تاہم کون نہیں جانتا کہ خطے اور دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہیرو شہید قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور دیگر بہت سے مجاہدین ہیں جنہوں نے خطے کو داعش کے وجود سے پاک کیا جبکہ وہ خود اپنی انتخاباتی مہوں کے دوران اور عالمی پلیٹ فارمز پر اعتراف کرچکے ہیں کہ داعش کو انہوں نے بنایا ہے۔
صدر رئیسی نے کہا کہ اس کانفرنس میں مشترکہ تفہیم تک پہنچنے سے اسلامی ملکوں میں پائیدار امن اور سلامتی حاصل ہوسکتی ہے۔ ہمیں ایک مرتبہ پھر اپنے فکری اثاثوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ دینی اور مذہبی مشترکات اور بین الادیان مکالمے ہونے چاہئیں۔ مختلف مذاہب اور ادیان کے افکار کے مابین انجام پانے والے یہ مکالمے بہت سے اختلاف کا جائزہ لے کر مشترکات پر تاکید کرسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کے مابین معاشی، اجتماعی اور سیاسی رابطہ بہت ضروری ہے، ہم اپنی حکومت میں اس پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ اس کانفرنس میں عالم اسلام کی ایک ضرورت کے طور پر مسلمانوں میں اتحاد کے تحفظ پر زور دیا جانا چاہئے جبکہ اختلافی مسائل کا تعصبات سے بالاتر ہو کر علمی، تحقیقی اجلاسوں اور تحقیقاتی کاموں کی صورت میں جائزہ لیا جانا چاہئے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ اہل بیت عصمت و طہارت ﴿ع﴾ سے محبت ہمیشہ سے مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد کا ایک اہم محور رہا ہے اور رہے گا۔ تقریبی نکتہ نگاہ امام جعفر صادق﴿ع﴾ کی ذات میں اور ائمہ و اہل بیت ﴿ع﴾ کی سیرت میں موجود ہے۔ یہی سوچ کام کو آگے بڑھائے گی تاہم تکفیری سوچ انتہائی خطرناک اور مضر ہے اور اس کانفرنس کو تکفیری سوچ سے مقابلے کی فکر کی ترویج کرنی چاہئے کہ جس کا دار و مدار آپ عزیزوں کی سوچ اور فیصلوں پر ہے۔

News ID 1912636

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha