مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق المسیرہ نے خبر دی ہے کہ انصار اللہ تحریک یمن کے سربراہ سید عبدالملک الحوثی نے منگل کو 21 ستمبر 2014 کے انقلاب کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب میں کہا ہے کہ 21 ستمبر کا انقلاب اس وقت رونما ہوا جب یمن میں امریکی پالیسیوں کا راج تھا اور ہمارا ملک مکمل تباہی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بلاشبہ 2011 میں یمنی قوم کے قیام کو غلط استعمال کرنے کے لیے غیر ملکی مداخلتیں ہوئیں۔ اس وقت امریکیوں نے معاملات کو اپنے قابو میں رکھنے اور تنازعات کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں جو کچھ ہوا اس پر قابو پانے اور ان واقعات کو کنٹرول کرنے اور ان کا غلط استعمال کرنے کے لیے بہت سی غیر ملکی مداخلتیں ہوئیں جس نے ہمارے ملک میں غیر ملکی پالیسیوں اور بنیادی طور پر امریکیوں اور آلہ کاروں کی خدمت کی۔
انصار اللہ کے سربراہ نے کہا کہ تمام سیاسی گروہوں کے نزدیک یمن میں امریکی سفیر کے اقدامات اس ملک کے قومی اقتدار اور خود مختاری کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ امریکیوں نے صنعاء میں اپنے سفارت خانے کو یمن میں تخریبی کارروائیوں کے ہیڈ کوارٹر میں تبدیل کیا ہوا ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ عرب ممالک کا اقدام بھی عربی لبادے میں ایک امریکی منصوبہ تھا اور یمن میں اس وقت کے امریکی سفیر کی براہ راست نگرانی میں تیار اور پیش کیا گیا تھا، مزید کہا کہ امریکیوں نے ہماری قوم کی آزادی کو ہتھیانے کی کوشش کی اور بالواسطہ طور پر اور جنگ کے بغیر ہمارے ملک پر تسلط قائم کرنا چاہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کا منصوبہ یہ تھا کہ ہمارے ملک کو اندر سے اور سیاسی دراڑوں میں شدت لا کر توڑ دیا جائے، واشنگٹن نے اس تقسیم اور خلا کو مضبوط کرنے کی کوشش کی تاکہ یمنی قوم اپنی اجتماعی شناخت کھو دے۔
تحریک انصار اللہ کے سربراہ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں عدم تحفظ کا احساس عام شہریوں اور سرکاری ملازمین اور حتیٰ کہ سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں پر بھی غالب آچکا تھا، 21 ستمبر کے انقلاب سے قبل بیشتر صوبوں میں قتل و غارت، دھماکوں اور تکفیری عناصر کی موجودگی عروج پر پہنچ چکی تھی، ڈاکوؤں اور مسافروں کو لوٹنا انقلاب سے پہلے عدم تحفظ کا مظہر تھا۔ معاشی حالات امریکہ کی مکمل تابعداری کے سائے میں قحط کی طرف بڑھ رہے تھے جبکہ معاشی تباہی کا کوئی جواز یا وجہ نہیں تھی، بلاشبہ اس وقت کے معاشی بحران کی وجہ اس وقت کی حکومت کی پالیسیاں تھیں نہ کہ جنگ اور محاصرے کے حالات۔
سید عبدالملک الحوثی نے کہا کہ بہت سی جماعتیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے موقف اور ان کی طرف سے پڑھائی گئی پالیسیوں سے متفق تھیں اور ایسے حالات میں عوامی انقلاب ضروری تھا۔یقیناً اس انقلاب نے امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کو حیران اور الجھا دیا۔اس عوامی انقلاب کے حقیقی اہداف اور نقطہ نظر تھے جو بیرونی ایما اور میڈیا کے پروپیگنڈے کی بنیاد پر شروع نہیں ہوئے تھے، یمنی عوام کے انقلابی مطالبات سچے اور منصفانہ تھے اور ان کا کوئی گروہی یا نسلی نقطہ نظر نہیں تھا۔
انصار اللہ کے سربراہ نے زور دے کر کہا کہ جارح اتحاد نے امریکہ کے حکم پر سرکاری اور عوامی مقامات کو نشانہ بنایا اور تمام بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا اور جیلوں، قبرستانوں اور اسکولوں کو بھی نہیں بخشا۔ جارح اتحاد نے سخت ناکہ بندیوں اور معاشی سازشوں کے ذریعے عوام کو مشکلات میں ڈالنے کی کوشش کی، جارح قوتوں کے تمام اقدامات ناجائز قابضوں والے تھے۔
انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ اس قوم کے ہزاروں بچے شہروں، دیہاتوں اور اسکولوں میں امریکی ساختہ بموں اور امریکی جنگی طیاروں کے فضائی حملوں میں امریکیوں کے منصوبہ بندی کردہ اور سعودیوں کے ذریعے کیے گئے حملوں میں شہید ہوئے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ نام نہاد صدارتی کونسل کا تقرر بھی امریکیوں اور سعودیوں نے کیا تھا مزید کہا کہ جارح اتحاد کی مداخلت اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں حکومت بناتا ہے اور وزیر کا تقرر کرتا ہے، البتہ وہ مقبوضہ علاقوں میں خوفناک حملوں اور وسیع مداخلتوں کے باوجود اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے اور خدا کے فضل سے ہماری قوم مقاومت کے سائے میں جیت گئی ہے۔
الحوثی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 21 ستمبر کے انقلاب کا سب سے پہلا پھل یمنی قوم کے ایمانی تشخص کا دفاع تھا، جارح قوتیں چاہتی تھیں کہ ہماری قوم کسی شناخت کے بغیر رہے لیکن آج ہماری قوم مقاومت کے سائے میں آزادی کی نعمت سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ اس انقلاب کا ایک اور پھل جارح قوتوں کے قبضے سے آزاد کرائے گئے علاقوں میں سلامتی اور استحکام کا احساس ہے اور ان صوبوں میں امن و استحکام کا مقبوضہ صوبوں سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
ان کہنا تھا کہ انٹلیجنس اور سیکورٹی سروسز کو مضبوط کرنے اور ان کی کارکردگی کو بہتر بنانے پر کام ہو رہا ہے جبکہ مشکلات و مسائل کے حل میں اندرونی امن و استحکام اور سماجی سکون کو برقرار رکھنا اور فوجی صنعتوں کی ترقی 21 ستمبر کے انقلاب کے دیگر ثمرات میں سے ایک تھا کہ یمن کے ملک اور قوم کو اس پر فخر ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوجی صنعتوں کی ترقی جارح قوتوں کے حملوں اور محاصروں کے سائے میں حاصل ہوئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یمن ہلکے، درمیانے اور جدید ہتھیاروں سمیت ہر قسم کے ہتھیار تیار کر رہا ہے اور ملک میں فوجی اور سول صنعتوں کا مستقبل روشن ہے۔
بعد ازاں انہوں نے کہا کہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی خطے میں تبدیلیاں لانے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ اس کی آڑ میں عرب ریاستوں اور اسرائیل کے تعلقات اور دوستی کو معمول پر لایا جاسکے۔
الحوثی نے زور دے کر کہا کہ امریکہ اور اس کے آلہ کار صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف بڑھ رہے ہیں جبکہ 21 ستمبر کے انقلاب نے تل ابیب کے ساتھ تعلقات کی بحالی خلاف یمنی قوم کے حقیقی مقام کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ انقلاب فلسطین کی مظلوم قوم کے ساتھ تعاون اور امت اسلامیہ کے حریت پسندوں کے ساتھ اخوت کے جذبے کے تسلسل کے بارے میں ہماری قوم کے موقف پر تاکید تھا۔
الحوثی نے کہا کہ جارحیت بدستور جاری ہے اور جنگ نہیں رکی، انہوں نے یمن کی ناکہ بندی کو اٹھایا نہیں ہے اور ہم صرف عارضی جنگ بندی کی صورت حال میں ہیں۔ ایک اہم ترین چیلنج جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جارح اتحاد کی طرف سے ملک کے کچھ حصوں پر قبضہ ہے اور محاصرہ بھی ان چیلنجوں میں سے ایک ہے جن سے انقلاب زور آزمائی کر رہا ہے۔
انصار اللہ کے سربراہ نے مزید کہا کہ جارح سعودی اتحاد کی طرف سے یمن کے تیل کی آمدنی اور دیگر وسائل کی لوٹ مار یمنی عوام کو خدمات کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہم جارح اتحاد کی جارحیت اور سازشوں کا مقابلہ کرتے رہیں گے، الحوثی نے کہا کہ میں ایک بار پھر جارح اتحاد سے کہتا ہوں کہ وہ جارحیت، محاصرہ اور قبضے کو ختم کردے، کیونکہ جارحیت کا تسلسل علاقائی اور بین الاقوامی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس کے منفی نتائج صرف یمن تک محدود نہیں ہیں، لہذا جارحیت کے جاری رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور اس کا جاری رہنا جارح اتحاد کو تباہی کی طرف لے جائے گا۔
آپ کا تبصرہ