مہر خبررساں ایجنسی، انٹرنیشنل ڈیسک؛ آذر مہدوان: ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان پیر کے روز ایران کا دورہ کر رہے ہیں۔ پانچ اہم معاملات من جملہ تہران اور انقرہ کے تعلقات کا فروغ اور شام کا مسئلہ ان کے دورے کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔
اردوغان پیر کے روز آستانہ عمل کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے تہران آرہے ہیں۔ دورے کی سائڈ لائن پر اردوغان کی ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی سے ملاقات بھی طے ہے۔
مہر نیوز کے نامہ نگار کو موصول ہونے والی آخری خبروں کے مطابق اردوغان کے وفد میں وزیر داخلہ، وزیر خارجہ، انٹیلینجس کے سربراہ، صدارتی دفتر کے سربراہ، صدارتی دفتر کے ترجمان، وزیر توانائی اور وزیر تجارت شامل ہوں گے۔ تاہم در ایں اثنا اردوغان سے قریب بعض ذرائع ابلاغ نے اس دورے کی کچھ جزئیات منتشر کی ہیں جو نشاندھی کرتی ہیں کہ ترکی کے صدر اس دورے کے دوران پانچ اہم معاملات کو زیرِ غور لائیں گے۔ اس رپورٹ میں ان پانچ محوروں پر مختصر تجزیہ پیش جا رہا ہے:
طویل مدتی باہمی تعاون کی دستاویز پر دستخط
برسر اقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے تھنک ٹینک سے قریب ذرائع ابلاغ کے دعووں کے مطابق دونوں ملکوں ﴿ایران اور ترکی﴾ کے ما بین طویل مدتی باہمی تعاون کی دستاویز پر دستخط کا امکان پایا جاتا ہے۔ ترکی کی حکومت ان دنوں اپنی ملکی سیاسی فضا میں امارات، سعودی عرب اور مصر کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی راہ پر گامزن ہے اور اسی نہج ایران اور ترکی کے دو طرفہ تعلقات کو بھی مزید اونچی سطح پر لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اسی لئے تہران اور انقرہ کے مابین طویل مدتی تعاون کی دستاویز کا زیادہ حصہ معاشی اور کاروباری تعلقات کے اضافے پر مشتمل ہوگا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ مفاہمت کی اس یادداشت میں ترکی، ایران اور امارات کے مابین تجارتی کوریڈور کے طریقہ کار کو بھی شامل کیا جائے گا۔ قابل ذکر ہے کہ ایران کے راستے امارات سے ترکی کی بندرگاہ اسکندرون تک تجارتی راستہ کھلنے سے حمل و نقل کی مدت ۲١ دن سے کم ہو کر ایک ہفتہ ہوجائے گی۔
دہشتگردی سے مقابلہ، غیر قانونی مہاجرین اور مختلف نوعیت کی اسمگلنگ کا مسئلہ
ایران اور ترکی کے رہنماوں کے مابین مشاورت کا محور قرار پانے والا ایک مسئلہ دہشتگردی، غیر قانونی مہاجرین اور انسانی اسمگلنگ ہوگا۔ باڈر سیکورٹی کا مسئلہ دونوں ملکوں کے لئے تشویش کا سبب بنا ہوا ہے جبکہ ماضی میں اس سلسلے میں بہت سے اشتراکِ عمل اور تعاون ہوں چکے ہیں۔ اس سے پہلے ترکی ایران اسٹریٹجک کونسل کے چھٹے اجلاس کے اعلامیہ میں دہشتگردی کے خلاف جنگ اور باڈر سیکورٹی فراہم کرنے کے معاملے پر زور دیا گیا۔ اس ضمن میں دونوں ملکوں کے مابین مختلف فریم ورکس کے تحت دو طرفہ تعاون پر مبنی اقدامات اٹھائے گئے۔
ترکی کی حکومت کے ایک وزیر سلیمان سویلو نے بھی ایک اخبار سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ترکی کی طرح ایران کو بھی غیر قانونی مہاجرین پر تشویش ہے جبکہ غیر قانونی مہاجرت اور اسمگلنگ کے معاملے میں انقرہ اور تہران کے مابین سنجیدہ نوعیت کا تعاون جاری ہے۔ التبہ ترکی ایران اسٹریٹجک کونسل کے ساتویں اجلاس میں شرکت بھی اردوغان کے حالیہ دورے کا حصہ ہے۔
یوکرین کی جنگ اور توانائی کا بحران
ایک اور معاملہ جس کے متعلق خیال کیا جا رہا ہے کہ اردوغان اور ایران کے صدر اس پر تبادلہ خیال کریں گے یوکرین پر روسی اقدامات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا توانائی کا بحران ہوگا۔ ترکی توانائی کے کیرئیر درآمد کرنے والے ملک کے طور پر یوکرین جنگ اور توانائی کے بحران پر اس کے اثرات سے متعلق فکرمند ہے۔ اگرچہ اس نے یوکرین کا معاملہ حل کرنے کے لئے ثالثی کی غرض سے بعض اقدامات اٹھائے تاہم ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اسی امر نے ایران اور ترکی کے صدور کے درمیان گفتگو، دو جانبہ گفتگو اور پیوٹن، رئیسی اور اردوغان کے ما بین سہ فریقی گفتگو کے متعلق بعض قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔
۳+۳ کا چھے فریقی پلیٹ فارم
رجب طیب اردوغان نے ۲۰۲۰ میں آذربائیجان میں قرہ باغ کی فتح کے بعد ہونے والی فوجی پریڈ میں شرکت کی اور آرمینیا، جورجیا، آذربائیجان، ایران، روس اور ترکی کے درمیان علاقائی تعاون پر مبنی آئیڈیا پیش کیا جسے انہوں نے قفقاز کے علاقائی گروپ کے منصوبے کا نام دیا۔ بعد میں اسے چھے فریقی پلیٹ فارم کے نام سے موسوم کیا گیا۔ انہوں نے اگلے سال قرہ باغ کی جنگ میں آزاد ہونے والے علاقے شوشا کے دورے کے موقع پر بھی اپنی تجویز کو دھرایا۔ ایران نے بھی وزیر خارجہ اور متعلقہ ملکوں میں مقیم سفرا کی سطح پر اس آئیڈیا کا خیر مقدم کیا۔
آگے چل کر نومبر ۲۰۲١ میں علاقائی تعاون کے پلیٹ فورم ۳+۳ کا پہلا اجلاس ماسکو میں ہوا۔ پلیٹ فارم میں جنوبی قفقاز کے تین ملکوں ﴿آذربائیجان، آرمینیا اور جورجیا، البتہ اجلاس روس سے سیاسی کشیدگی کی وجہ سے جورجیا کے نمائندے نے اجلاس میں شرکت نہیں کی﴾ اور اس خطے کے تین ہمسایہ ملک روس، ترکی اور ایران کے نائب وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ اگرچہ طے پایا تھا کہ رواں سال دوسرا اجلاس منعقد ہوگا تاہم یوکرین جنگ کے آغاز نے اجلاس کو تاخیر کا شکار کردیا۔ ایران اور ترک حکام کے بیانات کے مطابق مستقبل قریب میں چھے فریقی پلیٹ فارم کا دوسرا اجلاس تہران کی میزبانی میں منعقد ہوگا۔ خیال کیا جا رہا کہ اس اجلاس کی جزئیات پر تبادلہ خیال اردوغان کے دورے کی سائیڈ لائن پر ترکی اور ایران کے وفود کی سطح پر مشاورت کے موضوعات میں شامل ہوگا۔
شام، اردوغان کے پیش نظر سب سے اہم معاملہ
شام کا مسئلہ اگرچہ ترکی اور ایران کے اختلاف نظر کا سبب شمار ہوتا ہے تاہم ماضی میں اس مسئلے کے حل کے لئے دونوں ملکوں میں تعاون اور رابطے دیکھے گئے ہیں اور آستانہ عمل کے اجلاس میں طرفین نے باہمی افہام و تفہیم اور ڈپلومیسی پر مبنی روابط پر زور دیا تھا۔ تاہم ترکی کی شام کے اندر مہم جوئیوں نے دمشق کے مسئلے کو ناقابل حل بنا دیا ہے۔ ترک حکام کے بیانات اور میڈیا کی خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترک مسلح افواج نے خود کو فری سیرین آرمی ﴿جو انقرہ کی حمایت یافتہ ہے﴾ کے تعاون سے شام کے سرحدی علاقوں میں چوتھی مسلح کاروائی کرنے کے لئے تیار کیا ہوا ہے۔
حال ہی میں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے بھی ترکی اور شام کا دورہ کیا ہے اور ان ملکوں کے رہنماوں سے ملاقات کے دوران کوشش کی کہ سیکورٹی کے متعلق ترکی کو لاحق تشویش جارحیت پر مبنی حملوں سے ختم نہ کی جائے بلکہ ایک مرتبہ پھر سفارت کاری کے ذریعے ہی حل ہونی چاہئیں۔ امیر عبداللہیان نے اپنے دورہ شام کے مقصد کے متعلق ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ان کے دورے کا ایک حصہ شام اور ترکی کے مابین علاقائی استحکام، صلح اور سیکورٹی کو تقویت دینے کے فریم ورک پر مشتمل ہے۔ اس ضمن میں ایسا لگتا ہے کہ اردوغان کے ایران کے ساتھ تبادلہ خیال میں شام سب سے اہم مسائل میں سے ہوگا، یہاں تک روسی حکام کے دورہ تہران میں بھی یہی مسئلہ سرفہرست ہوگا۔
آپ کا تبصرہ