مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: بیروت کے حساس علاقے حارہ حریک میں حزب اللہ کے سینئر فوجی کمانڈر ہیثم علی طباطبائی المعروف ابو علی طباطبائی کی اسرائیلی حملے میں شہادت کو لبنان کی حالیہ تاریخ کا سب سے سنگین اور فیصلہ کن واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ سیاسی و عسکری تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہ حملہ خطے میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جاری کشمکش کو ایک بالکل نئے مرحلے میں دھکیل سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق، اسرائیل نے انتہائی درست نشانہ لگانے والے جدید ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اس حملے کو انجام دیا، جس نے نہ صرف حزب اللہ کے سیکیورٹی سسٹم کو چیلنج کیا بلکہ ضاحیہ جیسے محفوظ ترین خطے میں تل ابیب کی رسائی کے بارے میں سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ علاقہ دہائیوں سے حزب اللہ کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے، جہاں کسی بھی بیرونی حملے کی کامیابی کو سرخ لکیر عبور کرنے کے مترادف تصور کیا جاتا ہے۔
لبنانی اور بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ 2024ء کی جنگ بندی کی عملی حیثیت اب شدید متاثر ہوچکی ہے اور اسرائیل کے اس اقدام نے واضح کر دیا ہے کہ تل ابیب اب تنازع کو سرحدی جھڑپوں تک محدود رکھنے کے بجائے مرکزی میدان تک لے آیا ہے۔ دوسری جانب، حزب اللہ کی جانب سے ممکنہ بھرپور اور وسیع ردعمل کے امکانات نے خطے میں نئی کشیدگی کی فضا پیدا کر دی ہے۔
حملے کی منصوبہ بندی اور پیغام: لڑائی نئے مرحلے میں داخل
اتوار کے روز حارہحریک میں ایک رہائشی عمارت پر ہونے والا حملہ انتہائی درست نشانے والے میزائلوں کے ذریعے کیا گیا۔ لبنان کی وزارت صحت کے مطابق اس حملے میں پانچ افراد شہید اور اٹھائیس زخمی ہوئے۔ لبنانی سکیورٹی ذرائع نے بھی تصدیق کی کہ ہیثم طباطبائی اس کارروائی کا اصل ہدف تھے اور انہیں براہ راست نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل کئی برسوں سے انہیں حزب اللہ کا نمبر دو اور اس تنظیم کے فوجی ڈھانچے کے سب سے بااثر کمانڈر کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ وہ شخصیت جس نے رضوان فورسز کی تشکیل، 2006 کی جنگ کے نظم و نسق اور حزب اللہ کی جنگی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
اس کارروائی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اسرائیل دوبارہ ضاحیہ جنوبی میں داخل ہوا۔ گزشتہ چند ماہ میں زیادہ تر حملے جنوب لبنان اور بقاع تک محدود تھے اور تل ابیب بیروت کے مرکزی حصوں میں کارروائی سے گریز کرتا تھا۔ لیکن اب، ضاحیہ کے عین وسط میں براہ راست حملہ یہ واضح پیغام دیتا ہے کہ اسرائیل اب پرانی سرخ لکیروں کا پابند نہیں رہا اور وہ عملی طور پر جنگ کو حزب اللہ کے مرکز تک منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے کو پچھلے برسوں کی منظم ٹارگٹڈ کارروائیوں کے تسلسل میں دیکھنا چاہیے۔ فؤاد شکر اور ابراہیم عقیل سے لے کر سید حسن نصراللہ تک کی شہادتوں کا سلسلہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل ایک منظم منصوبے کے تحت مزاحمت کی اعلی سطحی قیادت کو کمزور کرنے کا منصوبہ چلا رہا ہے۔
امن کے وقفے سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوششیں
2024 کی جنگ کے بعد لبنان میں جس جنگ بندی کا اعلان ہوا تھا، وہ کبھی بھی حقیقی معنوں میں جنگ بندی نہیں تھی۔ اسرائیل ہر روز اس کی خلاف ورزیاں کرتا رہا۔ ڈرون حملے، توپخانے کی گولہ باری اور چھوٹے پیمانے کے مسلسل سرحدی اشتعال انگیزی اس کی مثالیں ہیں۔ اگرچہ یہ خلاف ورزیاں اس حد تک شدید نہیں تھیں کہ بڑے پیمانے پر میڈیا کی توجہ حاصل کریں، لیکن اب جب اتوار کے حملے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں، تو واضح ہوگیا ہے کہ اسرائیل نے اس جنگ بندی کے دوران دو اہم مقاصد حاصل کیے:
1۔ مزاحمتی کمانڈرز کی درست لوکیشنز کی نشاندہی۔
2۔ نسبتا امن کی فضا پیدا کرکے ان کمانڈرز کی سیکورٹی میں کمی لانا۔ دوسرے الفاظ میں، جنگ بندی اسرائیل کے لیے ایک معلوماتی موقع تھی اور طباطبائی کی شہادت اسی پالیسی کا نتیجہ ہے۔
لبنانی اور علاقائی مبصرین کا کہنا ہے کہ اتنی باریک بینی اور حساس نوعیت کی کارروائی امریکہ کی خاموش منظوری کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ گزشتہ کئی مہینوں سے امریکہ لبنان اور اسرائیل کے مابین تمام رابطہ لائنوں پر کنٹرول رکھے ہوئے تھا اور جنگ بندی کے نظام کی نگرانی بھی کر رہا تھا۔ اسی دوران واشنگٹن حزب اللہ کے خلاف سیاسی، سکیورٹی اور اقتصادی دباؤ کی ہمہ جہت پالیسی بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔ سعودی عرب، خلیجی ممالک یہاں تک کہ جنگ بندی کے ضامن ملکوں کا سکوت بھی ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے صرف اسرائیل نہیں؛ بلکہ ایک مکمل علاقائی و بین الاقوامی سیاسی چھتری بھی موجود ہے۔
صہیونی–غربی اتحاد کا ٹوٹتا ہوا دفاعی توازن
7 اکتوبر کے بعد اسرائیل نے زیادہ سے زیادہ خطرہ مول لینے کی پالیسی اپنا لی۔ اس پالیسی کے تحت اس نے جنگ کو صرف غزہ تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے لبنان، یمن اور یہاں تک کہ ایران تک پھیلا دیا۔ اگرچہ بعض محاذوں خصوصا ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ میں اسرائیل کو بھاری لاگت اور واضح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس کی مجموعی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تل ابیب اب بھی سمجھتا ہے کہ مزاحمتی کمانڈروں کا ٹارگٹڈ قتل ایک بڑی جنگ کو روک سکتا ہے اور حزب اللہ پر تنظیمی خوف مسلط کر کے دوبارہ توازن قائم کیا جا سکتا ہے۔
لیکن مزاحمتی محور کے تجزیہ کار اس سوچ کو سنگین غلط فہمی قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ بیس برس میں حزب اللہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ متعدد سطحوں پر مشتمل، لچک دار اور متبادل قیادت رکھنے والا ڈھانچہ رکھتا ہے۔ لہذا کمانڈروں کا قتل توازن پیدا نہیں کرتا، بلکہ عموما زیادہ سخت اور وسیع ردعمل کو جنم دیتا ہے اور لڑائی کے قواعد کو بدل دیتا ہے۔ اسی پس منظر میں بہت سے ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ یہ ترور ممکن ہے مزاحمت کے محدود جوابی فارمولے سے آگے بڑھ کر ایک زیادہ سخت اور وسیع جنگی معادلے کی ابتدا ثابت ہو۔
لبنانی ریاست: کمزور ڈھانچہ اور سیاسی ارادے کا بحران
اس بڑھتی ہوئی جارحیت کے مقابلے میں لبنانی حکومت تقریبا مفلوج دکھائی دیتی ہے۔ سیاسی نظام کی تقسیم، مختلف جماعتوں کا بیرونی طاقتوں پر انحصار اور اندرونی اختلافات نے ایسی صورتِ حال پیدا کر دی ہے کہ ریاست کسی مشترکہ قومی ردعمل پر متفق ہی نہیں ہورہی۔ حکومت نہ کوئی عملی قدم اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے، نہ واضح سیاسی موقف اختیار کرنے کی طاقت ہے۔ حتی کہ بنیادی سطح کے سفارتی اقدامات تک نہیں کیے گئے۔ یہ صورتحال ایک بار پھر حزب اللہ کے مؤقف کو مضبوط کرتی ہے کہ لبنان کی حفاظت صرف اپنی اندرونی مزاحمتی قوتوں کے سہارے ممکن ہے۔ اس حوالے سے مغربی ضمانتوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ ایک سال میں بعض لبنانی جماعتوں کی جانب سے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے یا اس کے دفاعی کردار کو محدود کرنے کے مطالبات بھی اس حملے کے بعد بے معنی ہوگئے ہیں۔
دارالحکومت بیروت اور ضاحیہ کے قلب میں حملے نے یہ حقیقت واضح کردی کہ اسرائی کسی بھی وقت کشیدگی کا درجہ بڑھانے اور مزاحمت پر کاری ضرب لگانے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اگر لبنان کے پاس مضبوط دفاعی قوت نہ ہو تو وہ محض ایک کھلا میدان بن کر رہ جائے گا جہاں بیرونی قوتیں جب چاہیں داخل ہوں اور حملہ کر کے نکل جائیں۔
شہید ہیثم طباطبائی کی زندگی اور جدوجہد پر ایک نظر
شہید ہیثم علی طباطبائی المعروف ابو علی 1968 میں جنوبی لبنان میں پیدا ہوئے اور حزب اللہ کے کمانڈروں میں شمار ہوتے تھے۔ حزب اللہ کے وہ بانی رہنما جنہوں نے 1980 کی دہائی میں تنظیم کی بنیاد رکھی، ان کے برعکس ابو علی ایک ایسے دور میں حزب اللہ میں داخل ہوئے جب تنظیم زیادہ منظم، پختہ اور واضح ڈھانچے کی حامل ہوچکی تھی۔ انہوں نے جوانی ہی میں حزب اللہ میں شمولیت اختیار کی اور 1990 کی دہائی میں جنوبی محاذوں پر ہونے والی جنگوں میں فعال کردار ادا کیا۔ 1996 میں وہ محور نبطیہ کے کمانڈر بنے اور سن 2000 میں جنوبی لبنان کی آزادی تک یہ ذمہ داری سنبھالتے رہے۔ بعد میں انہوں نے الخِیام محاذ کی کمان سنبھالی اور 2006 کی جنگ میں متعدد اہم عملیاتی محاذوں کی قیادت کی۔ ابو علی اس جنگ میں حزب اللہ کی کارروائیوں اور صہیونی فوج کے خلاف آپریشنز کے سب سے اہم منتظمین میں شامل تھے۔
2006 کی جنگ کے بعد وہ حزب اللہ کی فورسز آف انٹروینشن سے منسلک ہوئے اور رضوان فورسز کی تشکیل اور مضبوطی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ شام میں جنگ شروع ہونے کے بعد ابو علی طباطبائی تکفیری گروہوں کے خلاف اہم محاذوں کے مرکزی کمانڈروں میں شامل رہے۔ القلمون اور حلب کے کئی فیصل کن آپریشنز میں ان کی قیادت فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ وہ یمن میں انصار اللہ کی مدد کے لیے فوجی مشاورت اور بعض عملیاتی معاونت بھی فراہم کرتے رہے، جس کے باعث امریکہ اور اسرائیل کی نظر میں وہ مغربی ایشیا میں مزاحمتی محور کی سب سے کلیدی شخصیات میں شمار کیے جانے لگے۔
حالیہ برسوں میں، جب حزب اللہ کے کئی سینئر کمانڈر شہید ہوئے، ابو علی کا مقام اور اثر چند گنا بڑھ گیا۔ فؤاد شکر کی شہادت کے بعد انہیں عملا حزب اللہ کا اولین عسکری کمانڈر تصور کیا جانے لگا۔ اسرائیل نے ماضی میں بھی انہیں شام اور لبنان میں کئی بار نشانہ بنانے کی کوشش کی، مگر ہر بار ناکام رہا۔ یہ سلسلہ بالآخر اس وقت ختم ہوا جب صہیونی حکومت نے ضاحیہ جنوبی کے قلب میں ایک کامیاب حملہ کرکے انہیں نشانہ بنایا۔
طباطبائی کی شہادت لبنان کے مستقبل پر اسٹریٹجک اثرات
ابو علی طباطبائی کی شہادت حزب اللہ کی عسکری صلاحیت کو دوبارہ منظم ہونے سے روکنے اور اس کے کمانڈ ڈھانچے کو کمزور کرنے کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ اگر وہ حزب اللہ کی قیادت کی زنجیر میں خلل ڈال دے اور اہم شخصیات کو راستے سے ہٹا دے، تو آئندہ کسی بڑی جنگ میں مزاحمت کو بڑے چیلنج کا سامنا ہوسکتا ہے۔ لیکن ماضی کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ حزب اللہ ایک کثیر سطحی اور مربوط ڈھانچے پر مشتمل ہے اور کمانڈروں کی جگہ تیزی سے بھرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اگر حزب اللہ سخت اور وسیع جواب دیتی ہے تو جنگ کے پھیلنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ اگر وہ محدود جواب دیتی ہے تو اسرائیل اس سلسلے کے مزید ٹارگٹڈ حملے جاری رکھے گا۔ اس طرح حزب اللہ ایک اہم اسٹریٹجک دو راہے پر کھڑی ہے۔ حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ اب لبنان اور حزب اللہ کو اپنے دفاع کے طریقے اور دشمن کو روکنے کے انداز دوبارہ طے کرنا پڑیں گے۔
حاصل سخن
ابو علی طباطبائی کی شہادت لبنان میں جاری کشیدگی کا کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اب نہ جنگ بندی کی کوئی حقیقی حیثیت باقی رہی ہے اور نہ ہی پرانے سرخ خطوط برقرار ہیں۔ اسرائیل کی کارروائیاں زیادہ منظم، زیادہ عمیق اور زیادہ خطرناک شکل اختیار کرچکی ہیں۔ امریکہ کی پشت پناہی، جنگ بندی کے ضامن ممالک کی خاموشی، لبنانی حکومت کی کمزوری اور داخلی دباؤ ان سب نے مل کر ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس میں حزب اللہ کو انتہائی مشکل اور فیصلہ کن انتخاب کرنا پڑے گا۔
اس حملے کا اصل پیغام واضح ہے کہ صرف طاقت کی زبان ہی اسرائیل کو روک سکتی ہے۔ بیرونی وعدوں یا داخلی سیاسی دباؤ پر انحصار کرنا صرف لبنان کی دفاعی طاقت کو کمزور کرے گا۔ اب یہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں حزب اللہ کے ردعمل پر منحصر ہوگا کہ لبنان ایک نئی دفاعی صورتحال میں داخل ہوتا ہے یا پھر اسرائیل قتل و حملوں کا سلسلہ مزید بڑھا دیتا ہے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ اس حملے کے بعد پرانے اصول اور پرانے توازن اب ختم ہوچکے ہیں۔ لبنان ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں جنگ کبھی نظر آتی ہے اور کبھی پردے کے پیچھے چلتی ہے۔
آپ کا تبصرہ