مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ ایک بار پھر عالمی خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے، جہاں صہیونی حکومت کی جانب سے دو سال تک جاری رہنے والے تباہ کن حملوں نے انسانی بحران کو جنم دیا۔ ان حملوں کا مقصد نہ صرف فلسطینی مزاحمت کو کچلنا تھا بلکہ عوام کو بے دخل کرکے خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنا بھی تھا۔ تاہم، فلسطینی عوام اور مقاومتی تنظیموں نے غیر معمولی بہادری اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی سرزمین کا دفاع کیا بلکہ دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ اپنے وجود اور حق خودارادیت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
اس طویل جنگ کے بعد ہونے والی جنگ بندی بظاہر ایک امید کی کرن ہے، مگر ماہرین اسے صرف ایک عارضی وقفہ قرار دے رہے ہیں۔ کیونکہ نہ تو بنیادی مسائل حل ہوئے ہیں، اور نہ ہی صہیونی حکومت نے اپنی جارحانہ پالیسیوں سے پیچھے ہٹنے کا کوئی واضح اشارہ دیا ہے۔ اس جنگ بندی کے باوجود مستقبل میں صہیونی حکومت کی جانب سے عہد شکنی اور دوبارہ حملوں کا خطرہ بدستور موجود ہے۔
مبصرین کے مطابق فلسطینی مزاحمت نے اس جنگ میں کئی محاذوں پر کامیابیاں حاصل کیں۔ صہیونی حکومت اپنے اعلان کردہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ نہ مزاحمت کو ختم کیا جاسکا اور نہ عوام کو غزہ سے بے دخل کیا جاسکا۔ یہی ناکامی دراصل فلسطینی عوام اور مزاحمتی قوتوں کی فتح ہے، جو نہ صرف عسکری میدان میں بلکہ اخلاقی اور سیاسی سطح پر بھی نمایاں ہے۔
اس حوالے سے معروف مصری سیاسی تجزیہ کار اور سماجی ماہر محمد سید احمد نے تہران ٹائمز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ غزہ میں حالیہ جنگ بندی نہایت اہم ہے، کیونکہ یہ وہ طویل ترین جنگ تھی جو صہیونی دشمن نے فلسطینی عوام کے خلاف چھیڑی۔ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، کیونکہ یہ تنازعہ سرحدوں کا نہیں بلکہ وجود اور بقا کا ہے۔ یہ جنگ بندی صرف ایک وقتی وقفہ ہے، نہ کہ مکمل امن۔ اسی لیے یہ مرحلہ بہت اہم ہے۔
سید احمد کے انٹرویو کا متن ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
غزہ میں تقریبا دو سالہ تباہ کن جنگ کے بعد جنگ بندی کے معاہدے کی اہمیت کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
میرے خیال میں یہ معاہدہ بہت اہم ہے، کیونکہ یہ وہ طویل ترین جنگ تھی جو صہیونی حکومت نے فلسطینی عوام کے خلاف شروع کی۔ دو سال تک ہم نے محاصرے، تباہی اور فلسطینی عوام کی حقیقی نسل کشی کی کوششیں دیکھیں۔ اس لیے جنگ کا رکنا اور اس معاہدے کو قبول کرنا نہایت ضروری تھا تاکہ فلسطینی عوام اور مزاحمتی قوتیں کچھ سکون حاصل کرسکیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ صہیونی حکومت کے ساتھ یہ تصادم سرحدوں پر نہیں بلکہ وجود اور بقا پر ہے۔ جنگ بندی کا مطلب یہ نہیں کہ لڑائی ختم ہوگئی ہے، بلکہ یہ صرف ایک وقتی وقفہ ہے۔ اسی لیے یہ مرحلہ اس وقت بہت اہم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فلسطینی عوام نے مزاحمتی قوتوں کے ساتھ مل کر کسی حد تک صہیونی حکومت کو شکست دی ہے۔ ان کے اعلان کردہ مقاصد پورے نہیں ہوئے: نہ فلسطینی عوام کو بے دخل کیا جاسکا اور نہ ہی مزاحمت کو ختم کیا جاسکا۔ یہی بات بذات خود فلسطینی عوام اور مقاومت کی فتح ہے۔
آپ کے خیال میں وہ کون سے بنیادی عوامل تھے جنہوں نے صہیونی حکومت کو اس مخصوص وقت میں جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرنے پر مجبور کیا؟
اسرائیل نے اس معاہدے کو اس لیے قبول کیا کیونکہ جنگ کا جاری رہنا اس کے لیے ناقابل برداشت ہوچکا تھا۔ وہ اندرونی اور بین الاقوامی دباؤ کا شکار تھا۔ مقبوضہ علاقوں کی داخلی صورتحال خاصی خراب ہوگئی تھی۔ دو سال تک یہودی آبادکار مسلسل خوف اور خطرے کی حالت میں زندگی گزار رہے تھے اور قابض فوج کا مورال انتہائی حد تک گرچکا تھا۔ آبادکاروں نے نتن یاہو سے منہ موڑ لیا اور یہ تسلیم کرلیا کہ تل ابیب اس جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا لہذا جنگ کو روکنا ضروری ہوچکا تھا۔ اس اندرونی دباؤ کے ساتھ بھاری اقتصادی، سماجی، عسکری اور سیاسی نقصانات نے تل ابیب کو جنگ روکنے پر مجبور کردیا۔
بین الاقوامی رائے عامہ نے بھی صہیونی حکومت کو شدید دھچکا پہنچایا۔ صرف مغربی حکومتیں ہی نہیں بلکہ عوامی جذبات بھی اس پر اثرانداز ہوئے۔ فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی میں اضافہ ہوا اور فلسطین کے مقصد کے بارے میں شعور بڑھا۔ وہ بیانیے جو فلسطینیوں کو دہشت گرد ظاہر کرتے تھے، وہ بھی غلط ثابت ہوگئے۔ اس کے برعکس، فلسطینی عوام کو وطن کے محافظ اور ایسے لوگ سمجھا جانے لگا جو اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
آپ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کو، جس نے سیاسی حلقوں میں وسیع بحث چھیڑ دی ہے، کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
میری رائے میں یہ ایک صہیونی منصوبہ ہے۔ یہ کسی بھی صورت میں نہ فلسطینی عوام کے مفاد میں ہے اور نہ ہی فلسطینی مزاحمت کے۔ اس کے کئی نکات فلسطینیوں کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ درحقیقت اس منصوبے کا مقصد مزاحمت کی صلاحیتوں کو ختم کرنا اور ایک بین الاقوامی یا بیرونی حکومت قائم کرنا ہے، جس کی قیادت خود ٹرمپ یا ٹونی بلیئر جیسے افراد کے حوالے ہو۔ حماس کی جانب سے ردعمل نہایت دانشمندانہ تھا، جس نے مقاومت کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ روک دیا۔ یہی ردعمل حماس کو غزہ کے منظرنامے میں ایک مؤثر فریق اور شریک کے طور پر برقرار رکھنے کا سبب بنا۔ میری رائے کے مطابق ٹرمپ کے اہداف مکمل طور پر حاصل نہیں ہوسکے کیونکہ حماس نے نہ ہتھیاروں کے خاتمے کو قبول کیا اور نہ ہی کسی ایسے انتظام کو مانا جو بیرونی قوتوں کے زیر انتظام ہو۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ فلسطین پر صہیونی قبضے کی اصل وجوہات یا فلسطینیوں کے آزاد ریاست کے حق کو تسلیم کیے بغیر مسئلہ فلسطین کی نئی تعریف کرنے کی کوشش ہے، کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟
جی ہاں، میں اس رائے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ اس منصوبے میں مسئلے کی جڑوں کو نظرانداز کیا گیا ہے اور فلسطینی عوام کو آزاد ریاست کے قیام کا حق نہیں دیا گیا۔ یہ منصوبہ بنیادی طور پر خونریزی کو روکنے اور سانس لینے کے لیے ایک وقفہ فراہم کرنے کی کوشش ہے، لیکن صہیونی حکومت کے ساتھ تصادم مختلف مراحل میں جاری رہے گا۔ ہمیں اس موقع کو غزہ کی تعمیرنو، عوام کی حالت کو بہتر بنانے، مزاحمت اور فلسطینی دھڑوں کی تنظیم نو اور اتحاد کی کوششوں کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ مزاحمت ہی اس دشمن کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ ہے، کیونکہ یہ جنگ سرحدوں کی نہیں بلکہ بقا کی جنگ ہے۔ نتن یاہو حکومت اب بھی نیل سے فرات تک جیسے توسیع پسندانہ نعرے لگاتی ہے اور صرف فلسطینیوں کو نہیں بلکہ وسیع تر عرب آبادی کو بے دخل کرنے کے درپے ہے۔ صہیونی حکام اس مقصد کو ایک مقدس مشن سمجھتے ہیں، اس لیے بین الاقوامی قوانین اور اس حقیقت کے باوجود کہ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 157 فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں، وہ کبھی اپنی مرضی سے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
ٹرمپ کے منصوبے میں ٹونی بلیئر کو جنگ کے بعد غزہ میں حکومت کی نگرانی کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ مصر اور مجموعی طور پر عرب دنیا میں اس تجویز کو کس نظر سے دیکھا جا رہا ہے؟
ٹونی بلیئر کا غزہ کی حکمرانی میں مجوزہ کردار مصر اور عرب دنیا کی جانب سے مکمل طور پر مسترد کردیا گیا ہے۔ مصر نے حماس کے ردعمل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور اس تجویز کو مسترد کرنے میں مدد فراہم کی۔ مصر اس بات پر زور دیتا ہے کہ غزہ کا مستقبل خود فلسطینیوں، بشمول تمام فلسطینی دھڑوں، کے ذریعے طے ہونا چاہیے۔ حماس نے واضح طور پر کسی بیرونی حکومت کی نگرانی کو مسترد کر دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کے اس مؤقف کو تسلیم کیا کہ غزہ کی بیرونی نگرانی ناقابل قبول ہے۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مغربی نگرانی غزہ کے معاملے میں عرب ممالک کے کردار یا خطے کی خودمختاری کو کمزور کرسکتی ہے؟
میں نہیں سمجھتا کہ مغربی نگرانی عربوں کے کردار کو مضبوط کرے گی، بلکہ یہ اسے کمزور ہی کرے گی۔ غزہ فلسطینی مقصد کے لیے ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر حماس مغربی حکومت کی نگرانی اور اپنے ہتھیاروں کے خاتمے پر رضامند ہوجاتی تو مسئلہ فلسطین عملی طور پر پس منظر میں چلا جاتا۔ غزہ کی جنگ کے بنیادی اہداف یعنی فلسطینیوں کو بے دخل کرنا اور حماس کو ختم کرنا حاصل نہیں ہوسکے۔ اس کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین زندہ رہا اور مزاحمت بھی برقرار ہے۔ یہ جدوجہد فلسطین کی مکمل آزادی کے لیے جاری رہ سکتی ہے۔
آپ کا تبصرہ