مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: صہیونی حکومت غزہ کے فلسطینیوں کے قتلِ عام اور نسل کشی کے لئے بھوک اور اقتصادی محاصرے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے اسی وجہ سے اس جنگ زدہ علاقے میں انسانی بحران روز بہ روز شدت اختیار کررہا ہے۔ دوسری طرف، غزہ میں صہیونی نسل کشی اور لبنان پر وحشیانہ حملے کے باوجود اسلامی ممالک کے سربراہان نے قاہرہ اجلاس میں کوئی ٹھوس اور عملی اقدام کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
اسی تناظر میں، مہر نیوز نے الجزائر میں حماس کے نمائندے ڈاکٹر یوسف حمدان سے گفتگو کی ہے جس کا متن قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے:
مہر نیوز: عرب ممالک امریکی منصوبے کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ اور منصوبہ عرب میڈیا میں کیوں شدت اختیار کرگیا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ عرب ممالک امریکہ کے فلسطین مخالف رویے اور خطے کی سلامتی سے متعلق اس کی بے پروائی کو نظر انداز کر دیں؟ جس طرح وہ ماضی میں فلسطینی عوام اور صہیونی مظالم کو نظر انداز کرتے رہے؟
یوسف حمدان: فلسطین کو اس کے عرب و اسلامی تشخص سے جدا کرنا ممکن نہیں۔ غزہ پر صہیونی حکومت کا ناجائز قبضہ جاری رہنا عرب حکومتوں کے اس موقف کا نتیجہ ہے جسے عرب امن اقدام کہا جاتا ہے جو کہ صہیونیوں کے ساتھ امن و امان اور مزاحمتی اتحاد کو مسترد کرنے پر مبنی ہے۔ اس رویے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ عرب حکومتیں فلسطین میں صہیونی وجود کو نہ صرف تسلیم کرنا چاہتی ہیں بلکہ ان کے ساتھ تعلقات بھی قائم کر رہی ہیں۔ صہیونی حکومت نے بعض عرب ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کر لیے، جبکہ فلسطینی مسئلے کو دانستہ طور پر صرف فلسطینیوں کا داخلی مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا لیکن طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کے تمام سازشی منصوبوں، تعلقات قائم کرنے کی کوششوں، اور فلسطینی کاز کو کمزور بنانے کے منصوبوں کو شدید دھچکہ لگایا دیا۔
طوفان الاقصی کے بعد امریکہ نے صہیونی حکومت کو مکمل فوجی، مالی اور سیاسی حمایت فراہم کی، جبکہ عرب حکومتیں صرف لفظی مذمت تک محدود رہیں اور یہاں تک کہ غزہ کے بھوکے عوام کے لیے خوراک و ادویات بھی نہ پہنچا سکیں۔ جب صہیونی حکومت اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے فلسطینی قوم کی ارادے کو توڑنے اور مزاحمت کو ختم کرنے کے منصوبے ناکام ہوئے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کی تجویز دی تو عرب ممالک کو بھی احساس ہوا کہ یہ منصوبہ صرف غزہ یا غرب اردن تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
اسی بنیاد پر عرب ممالک نے ایک اجلاس منعقد کیا تاکہ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات پر غور کیا جائے اور ٹرمپ کے منصوبے پر ردعمل ظاہر کیا جائے۔ عرب ممالک نے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو مسترد کیا، جو کہ ایک مثبت اقدام ہے۔ انہوں نے غزہ کی تعمیر نو اور ایک انتظامی ڈھانچے کی تشکیل میں تعاون کی آمادگی کا اظہار کیا ہے، لیکن یہ تمام دعوے تبھی مؤثر ہوں گے جب ان کے پیچھے عملی اقدامات ہوں۔ جب تک غزہ کا محاصرہ ختم نہیں ہوتا، امدادی سامان اور تعمیر نو کا سامان نہیں پہنچتا، اور صہیونی مظالم کا حقیقی مقابلہ نہیں ہوتا، اس وقت تک صہیونی حکومت فلسطین کے ساتھ ساتھ لبنان، شام، اردن اور حتیٰ کہ مصر کے لئے بھی خطرہ بنی رہے گی۔
مہر نیوز: اسرائیلی فوجیوں کی لاشوں کی واپسی کے ساتھ ہونے والے حالیہ قیدیوں کے تبادلے میں، چند فلسطینی قیدیوں کو صہیونی جیلوں سے رہا کیا گیا، جس کے نتیجے میں نتن یاہو کو شدید سیاسی دھچکا لگا۔ انہیں ان اسرائیلی یرغمالیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا فلسطینی مزاحمت نتن یاہو کی جانب سے فتح کے دعووں کو جھوٹا ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے؟ اور ان حالات کے مقبوضہ علاقوں کی اندرونی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
یوسف حمدان: غزہ سے جاری ہونے والے سیاسی و میڈیا پیغامات نے بین الاقوامی برادری کو جو اب تک صہیونی بیانیے پر یقین رکھتی تھی، یہ سمجھا دیا کہ صہیونی فوج نہ تو فلسطینی مزاحمت کو شکست دے سکی ہے، نہ ہی غزہ میں کوئی انتظامی خلا پیدا کرسکی ہے۔ یہ بات بھی آشکار ہوئی کہ غزہ میں انتظامی و حکومتی نظام پوری طرح فعال ہے، اور مزاحمتی قوتیں مکمل اقتدار اور دفاعی صلاحیت کے ساتھ نہ صرف موجود ہیں بلکہ صہیونی تجاوزات کے خلاف ثابت قدمی سے دفاع کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی مزاحمت نے صہیونی یرغمالیوں کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ اس کے برعکس صہیونی حکومت نے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا ہے۔ یہ تمام حقائق نتن یاہو کے جھوٹے دعووں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ انہوں نے یرغمالیوں کے خاندانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ باقی قیدی ہلاک ہوچکے ہیں تاہم مزاحمتی میڈیا کی مہم نے ایک بار پھر اسرائیلی عوام کو یہ باور کرایا کہ ان کا وزیر اعظم جھوٹ بول رہا ہے، قیدی زندہ ہیں اور مزاحمت انہیں انسانیت کے دائرے میں رکھ کر تحفظ دے رہی ہے۔ جبکہ خود نیتن یاہو ان قیدیوں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس ساری صورتحال نے صہیونی داخلی نظام اور رائے عامہ پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔
مہر نیوز: غزہ جنگ کے اہداف کے حصول میں صہیونی حکومت کی ناکامی اور منتشر رائے عامہ کو دیکھتے ہوئے مستقبل کا منظرنامہ کیا ہوسکتا ہے؟
یوسف حمدان: غزہ کی صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ صہیونی حکومت جنگ بندی کے معاہدے پر عمل نہیں کر رہی، جبکہ عرب دنیا غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور امدادی راہداری بنانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ اس کے باوجود فلسطینی قوم اور غزہ کے عوام کے دل و دماغ میں یہ یقین راسخ ہو چکا ہے کہ وہ خالی ہاتھ بھی قابض دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔ وہ اپنی سرزمین پر باقی ہیں اور اس جنگ کا اختتام صرف صہیونی قبضے کے خاتمے پر ہی ممکن ہے۔ مزاحمتی قوتیں پہلے سے زیادہ تیار ہیں اور اپنے عوام، سرزمین اور مقدسات کے دفاع کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم اس جنگ میں تنہا نہیں ہیں۔ ہمارے سچے بھائی یمن میں اس بات کا اعلان کرچکے ہیں کہ اگر صہیونی جارحیت بڑھی تو وہ بھی جنگ میں شریک ہوں گے۔ یہ مجاہدین کی حوصلہ افزائی کا باعث بنی ہے کہ وہ اپنے جائز اور فطری حقوق کے لیے قابض دشمن کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔
آپ کا تبصرہ