مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، محمد رضا مرادی: ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ، جو غزہ میں جنگ کے خاتمے کے دعوے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، امن کی حقیقی کوشش سے زیادہ ایک نوآبادیاتی حکمرانی کا نیا خاکہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ منصوبہ فلسطینی مقاومت کو غیر مسلح کرنے، غزہ پر بیرونی نظام مسلط کرنے اور اسرائیلی قبضے کو جاری رکھنے جیسے نکات پر مبنی ہے، جو جنگ کے خاتمے کے بجائے خطے میں نئے تنازعات کا باعث بن سکتا ہے۔
خطے کے امور کے ماہر ڈاکٹر محمد رضا مرادی کے مطابق، یہ منصوبہ یکطرفہ نوعیت کا حامل ہے، جو اسرائیل کے مفادات سے مکمل ہم آہنگ ہے اور فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ منصوبے کی تیاری میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر جیسے چہرے شامل ہیں، جو اسے ایک سیاسی و اسٹریٹجک نوآبادیاتی منصوبہ بناتے ہیں۔ منصوبے میں نہ صرف فلسطینیوں کے قومی و انسانی حقوق کو پسِ پشت ڈالا گیا ہے بلکہ ایک ایسا نظام تھوپنے کی کوشش کیںجارہی ہے جو فلسطینیوں کو اپنے مستقبل کے فیصلے سے محروم کر دے۔
اس تجزیے میں ان چیلنجز کا جائزہ لیا گیا ہے جو اس منصوبے کو امن کے بجائے ناکامی اور مزید تنازع کی طرف لے جاتے ہیں۔
تاریخی پس منظر
ٹرمپ کا غزہ کے لیے پیش کردہ منصوبہ ایک طویل تاریخ کا تسلسل ہے، جس میں عالمی طاقتیں فلسطین میں مداخلت کرتی رہی ہیں۔ 1917 کے بالفور اعلامیہ سے لے کر 1993 کے اوسلو معاہدے تک، بارہا کوشش کی گئی کہ فلسطین-اسرائیل تنازع کو سیاسی اور سیکیورٹی ڈھانچوں کے ذریعے قابو میں لایا جائے۔ یہ تمام منصوبے اس لیے ناکام ہوئے کہ ان میں فلسطینی عوام کی خواہشات کو نظرانداز کیا گیا اور اسرائیل و دیگر طاقتوں کے مفادات کو ترجیح دی گئی۔ ٹرمپ کا منصوبہ، جسے "امن منصوبہ" کہا جا رہا ہے، درحقیقت اسی یکطرفہ سوچ کا تسلسل ہے جو 2020 کے "صدی کی ڈیل" میں بھی دیکھی گئی تھی۔
منصوبے میں حماس کو غیر مسلح کرنے، غزہ پر بین الاقوامی نگرانی مسلط کرنے اور اسرائیل کی موجودگی کو برقرار رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ نہ تو صہیونی قبضے کو ختم کرسکتا ہے، نہ فلسطینی حقوق کی پامالی روک سکتا ہے اور نہ ہی فلسطینی مہاجرین کی واپسی جیسے بنیادی مسائل کو حل کرتا ہے بلکہ یہ ایک ایسا نظام تھوپنے کی کوشش ہے جو فلسطینیوں کو اپنے مستقبل کے فیصلے سے محروم کردیتا ہے۔
منصوبے کے اہم چیلنجز
1. مزاحمت کا غیر مسلح کرنا
منصوبے کا مرکزی نکتہ حماس کو فوری غیر مسلح کرنا اور اس کی عسکری صلاحیتوں کا خاتمہ ہے۔ یہ شرط، جو سخت پابندیوں کی دھمکیوں کے ساتھ پیش کی گئی ہے، نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ ہے بلکہ فلسطینیوں کے جائز دفاعی حق کی نفی بھی کرتی ہے۔ تاریخی طور پر، حماس اور دیگر مزاحمتی گروہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کا لازمی حصہ رہے ہیں۔
غزہ میں حکومت کے اطلاعاتی دفتر کے سربراہ اسماعیل الثوابته کے مطابق، یہ منصوبہ ایک نیا نظام مسلط کرنے کی کوشش ہے جو اسرائیلی قبضے کو جائز قرار دیتا ہے اور فلسطینی قوم کو اس کے قومی، سیاسی اور انسانی حقوق سے محروم کرتا ہے۔ جب تک فلسطینیوں کو واپسی کا حق اور آزاد ریاست کے قیام جیسے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں دی جاتی، مزاحمت کو ختم کرنے کی شرط دراصل ایک زبردستی جھکانے کی کوشش ہوگی۔ تاریخ گواہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت نے ایسے دباؤ کے سامنے کبھی ہار نہیں مانی، اور یہ شرط نہ صرف امن کی راہ میں رکاوٹ بنے گی بلکہ ممکنہ طور پر مزید مزاحمت اور تصادم کو جنم دے گی۔
2. غزہ پر بیرونی نظام اور نوآبادیاتی طرزحکمرانی کی واپسی
ٹرمپ کے منصوبے میں ایک بین الاقوامی ادارے امن کونسل کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، جس کی نگرانی خود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے اور اس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر بھی شامل ہوں گے۔ یہ ادارہ ایک فلسطینی کمیٹی پر نظر رکھے گا، جس میں صرف غیرسیاسی اور تکنیکی ماہرین شامل ہوں گے، اور اس کا کام غزہ میں شہری خدمات اور انتظامی امور کی نگرانی ہوگا۔
یہ ڈھانچہ ماضی کی نوآبادیاتی حکمرانی کی یاد دلاتا ہے، جب بیرونی طاقتیں تعمیر و ترقی کے نام پر مقبوضہ علاقوں پر کنٹرول حاصل کرتی تھیں۔ ٹونی بلیئر کی موجودگی خاص طور پر متنازع ہے، کیونکہ انہیں 2003 میں عراق پر حملے اور جعلی دعووں کی بنیاد پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی حمایت پر شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔ فلسطینی رہنما مصطفی البرغوثی کہتے ہیں کہ ہم پہلے ہی برطانوی استعمار کا تجربہ کرچکے ہیں۔ ٹونی بلیئر یہاں منفی شہرت رکھتے ہیں۔ جب آپ ان کا نام لیتے ہیں، تو لوگوں کو سب سے پہلے عراق کی جنگ یاد آتی ہے۔ بلیئر کے کردار کو 2003 میں عراق پر امریکی قبضے کے بعد تعینات کیے گئے امریکی حکمران پال بریمر سے تشبیہ دی جا رہی ہے، جنہوں نے فوج تحلیل کرکے ملک کو عدم استحکام اور انتشار کی طرف دھکیل دیا۔ اسی طرح، ٹونی بلیئر کی موجودگی بھی غزہ میں عوامی اعتماد کی کمی اور قانونی جواز کے فقدان کے باعث ممکنہ طور پر منفی نتائج پیدا کرے گی۔ یہ بیرونی انتظامی ماڈل، جو فلسطینیوں کو اپنی سرزمین کے حقیقی نظم و نسق سے محروم کرتا ہے، نہ صرف امن کے قیام میں ناکام رہے گا بلکہ ایک نئی نوآبادیاتی کوشش کے طور پر مزید مزاحمت کو جنم دے گا۔
3. اسرائیل کا مکمل انخلا نہ ہونا اور قبضے کا تسلسل
ٹرمپ کے منصوبے کی ایک بنیادی خامی یہ ہے کہ اس میں اسرائیلی فوج کے غزہ سے مکمل انخلا کی کوئی واضح ضمانت نہیں دی گئی ہے۔ منصوبے میں اسرائیلی فوج کی تدریجی واپسی کی بات کی گئی ہے، لیکن اس کے لیے کوئی مقررہ وقت یا حتمی تاریخ نہیں دی گئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل شمالی اور جنوبی غزہ پر سیکیورٹی کنٹرول برقرار رکھے گا۔
فلسطینی تجزیہ کار ہانی المصری کہتے ہیں کہ منصوبے میں اسرائیلی فوج کے حقیقی انخلا کا ذکر نہیں، بلکہ بغیر کسی وقت کی حد کے تدریجی واپسی کی بات کی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسرائیلی سیکیورٹی کنٹرول غیر معینہ مدت تک جاری رہے گا۔ یہ بات خود ٹرمپ کے اس دعوے سے متصادم ہے کہ اسرائیل غزہ پر قبضہ نہیں کرے گا۔ اسرائیلی فوج کی مسلسل موجودگی، خواہ محدود پیمانے پر کیوں نہ ہو، قبضے کا تسلسل اور فلسطینی خودمختاری کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف غزہ کی تعمیر نو اور مہاجرین کی واپسی میں رکاوٹ بنے گی، بلکہ اسرائیل کو سیکیورٹی کے بہانے نئے حملے کرنے کا موقع بھی فراہم کرے گی۔ تاریخی تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ اسرائیل ایسے مواقع کو فلسطینی علاقوں پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔
ٹرمپ کا منصوبہ امن کیوں نہیں لاسکتا؟
1. اسرائیل کے ساتھ یکطرفہ ہم آہنگی
ٹرمپ کا منصوبہ واضح طور پر اسرائیل کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ فریقین کے درمیان توازن قائم کرنے کے بجائے اسرائیل کے مفاد میں ہے۔ منصوبے میں حماس کو غیر مسلح کرنے اور اس کے سیاسی کردار کو ختم کرنے پر زور دیا گیا ہے، جبکہ اسرائیل کی فوجی کارروائیوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ ٹرمپ نے یہاں تک دھمکی دی ہے کہ اگر حماس نے منصوبہ قبول نہ کیا تو وہ نیتن یاہو کو مشن مکمل کرنے کی اجازت دے گا۔ ایک ایسا جملہ جو فلسطینی شہریوں کے خلاف مزید فوجی حملوں اور خونریزی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ یکطرفہ رویہ، جو امریکہ کی اسرائیل کے لیے غیر مشروط حمایت سے جڑا ہوا ہے، منصفانہ مذاکرات کے امکان کو ختم کردیتا ہے۔
2. فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو نظرانداز کرنا
ٹرمپ کے منصوبے میں فلسطینی عوام کے ناقابل انکار حقوق جیسے اپنے گھروں کو واپسی کا حق، خودمختاری، اور آزاد فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو، کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
فلسطینی اسلامی جہاد کے سیکریٹری جنرل زیاد النخاله کے مطابق، ٹرمپ اور نیتن یاہو کی مشترکہ پریس کانفرنس میں جو کچھ بیان کیا گیا، وہ دراصل ایک امریکی-اسرائیلی معاہدہ تھا جو مکمل طور پر اسرائیل کے مؤقف کی ترجمانی کرتا ہے۔ منصوبے میں غزہ کو ایک غیر ملکی ادارے کے تحت چلانے کی تجویز دی گئی ہے، جس میں فلسطینیوں کی حقیقی شرکت شامل نہیں۔ یہ تجویز فلسطینی خودمختاری کو نظرانداز کرتی ہے اور انہیں ایک محکوم اقلیت میں تبدیل کر دیتی ہے۔
3. عملی طور پر ناقابلِ عمل ہونا
اس منصوبے کی عملداری کئی عملی رکاوٹوں سے دوچار ہے۔ اول، فلسطینی مزاحمت خاص طور پر حماس علاقائی اور عالمی دباؤ کے باوجود مکمل طور پر غیر مسلح ہونے پر آمادہ نہیں ہوگی۔ دوم، مصر، اردن اور سعودی عرب جیسے ممالک جبری ہجرت یا غزہ پر بیرونی نظام مسلط کرنے کی تجویز کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ ان ممالک کی مخالفت، اور فلسطینی عوام کی ٹرمپ اور ٹونی بلیئر پر گہری بے اعتمادی، اس منصوبے کو عملی طور پر ناممکن بنا دیتی ہے۔
4. ناکام نوآبادیاتی منصوبوں سے مماثلت
ٹرمپ کا منصوبہ ماضی کے ان نوآبادیاتی منصوبوں کی یاد دلاتا ہے جو بالآخر ناکامی سے دوچار ہوئے۔ غزہ کو مشرق وسطیٰ کی ریویراء بنانے کی امریکی تجویز بیسویں صدی کے استعماری خوابوں سے مشابہت رکھتی ہے۔ امریکی میڈیا نے خبردار کیا ہے کہ یہ منصوبہ نسلی صفائی کا باعث بن سکتا ہے اور خطے کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ 2003 کے بعد عراق کا تجربہ واضح کرتا ہے کہ جب عوامی خواہشات کو نظرانداز کر کے بیرونی حکمرانی مسلط کی جاتی ہے تو اس کا نتیجہ انتشار اور مسلح مزاحمت کی صورت میں نکلتا ہے۔
نتیجہ
ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ، جو اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات میں پیش کیا گیا، غزہ میں جنگ بندی کے دعوے کے باوجود یکطرفہ طرز عمل اور متعدد ابہامات کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنا ہے۔
یہ منصوبہ، جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر عرب رہنماؤں کو پیش کیا گیا تھا، فوری طور پر اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، 72 گھنٹوں میں ہلاک شدگان کی لاشوں کی حوالگی، اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے پر زور دیتا ہے تاہم اس میں غزہ کی تعمیر نو، تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی یا انسانی امداد کی فراہمی کے لیے کوئی ووواضح منصوبہ بندی موجود نہیں۔ صرف 250 عمر قید کے قیدیوں اور 1700 دیگر افراد کی رہائی کا ذکر کیا گیا ہے۔
ٹرمپ نے اپنی سابقہ جبری ہجرت کی تجویز سے پیچھے ہٹتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ غزہ سے انخلا اختیاری ہوگا۔ منصوبے میں غزہ کے انتظام کے لیے ایک بین الاقوامی ادارے اور ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، لیکن ان اداروں کے ارکان، وقت کا تعین اور مالی وسائل کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ اسرائیلی فوج کی تدریجی واپسی بھی بغیر کسی جغرافیائی حد بندی یا مقررہ وقت کے تجویز کی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کا سیکیورٹی کنٹرول برقرار رہے گا۔ منصوبے میں حماس کے کردار کو ختم کرنے اور اس کے ارکان کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے، جو امن کے بجائے قبضے کو دوام د ینے اور فلسطینیوں کے حقوق سلب کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ ٹونی بلیئر جیسے متنازع شخصیات کی شمولیت کی وجہ سے یہ۔منصوبہ بھی متنازع ہوا ہے کیونکہ اس میں فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو نظرانداز کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں امن کے بجائے ایک نئے دور کی کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔
مصری سیاستدان محمد البرادعی نے اس منصوبے کو تسلیم اور سمجھوتے کا منصوبہ قرار دیا ہے۔ حقیقی امن کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ تنازع کی جڑ یعنی اسرائیلی قبضہ اور فلسطینی حقوق کی خلاف ورزی کو تسلیم کیا جائے۔ جب تک ان حقائق کو تسلیم نہیں کیا جاتا، کوئی بھی منصوبہ، چاہے دعوے کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، پائیدار امن کی ضمانت نہیں دے سکتا۔
آپ کا تبصرہ