16 ستمبر، 2025، 9:00 AM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

امت مسلمہ کے درمیان اتحاد، صہیونی حکومت کی بڑھتی ہوئی تنہائی

امت مسلمہ کے درمیان اتحاد، صہیونی حکومت کی بڑھتی ہوئی تنہائی

قطر پر صہیونی جارحیت کے بعد مسلمان ممالک مختلف شعبوں میں باہمی اتحاد پیدا کرکے صہیونی حکومت کو مزید تنہائی میں دھکیل سکتے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اسرائیلی فضائیہ نے گذشتہ ہفتے قطر کی فضائی حدود کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے دوحہ میں واقع اس مقام کو نشانہ بنایا جہاں خلیل الحیہ کی صدارت میں حماس کا اعلی سطحی اجلاس جاری تھا۔ صہیونی حکومت نے اس حملے کے ذریعے صرف قطر کی خودمختاری کو چیلنج کیا بلکہ خطے میں جنگ بندی کی کوششوں اور علاقائی تعاون کو بھی شدید دھچکا پہنچایا۔

اس واقعے کے بعد اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس 14 ستمبر کو دوحہ میں منعقد ہوا جس میں ایران کے وزیر خارجہ بھی شریک ہوئے۔ یہ اجلاس دراصل اس سربراہی کانفرنس کے لئے تمہید تھا۔ سربراہی اجلاس میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے بھی شرکت کی۔ مبصرین کے مطابق، اس بار اسلامی اور عرب ممالک نے واضح اشارہ دیا ہے کہ صرف سفارتی احتجاج اور مذمتی بیانات کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ صہیونی جارحیت کو روکا جاسکے۔

اجلاس سے قبل صدر پزشکیان نے اسلامی ممالک کے سامنے دو نکاتی لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے کہا کہ تمام اسلامی ممالک کو صہیونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ مسلم دنیا کو زیادہ سے زیادہ اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ دشمن کسی اسلامی ملک پر حملے کی جرات نہ کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ اگر مسلمان ایک ہی بازو بن جائیں تو اسرائیل کے تمام منصوبے ناکام ہوجائیں گے۔ وحدت اسلامی اب محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک ہتھیار ہے، جسے استعمال کئے بغیر نہ انصاف قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی خطے میں پائیدار امن ممکن ہے۔

انہوں نے ایران کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ صہیونی حملوں کے باوجود ایرانی قوم کے اتحاد و یکجہتی نے نہ صرف طاقت کا توازن بدل دیا بلکہ اسرائیل کو عالمی سطح پر پہلے سے زیادہ تنہائی میں دھکیل دیا۔ اگر یہی اتحاد اسلامی ممالک کے درمیان وسیع پیمانے پر قائم ہوجائے تو عالم اسلام دنیا میں عدل و انصاف کا ایک نیا نظام تشکیل دے سکتا ہے اور اسرائیلی عزائم آدھے راستے ہی میں دفن ہوجائیں گے۔

خارجہ پالیسی کے ممتاز ماہر حسن لاسجردی نے کہا ہے کہ اسرائیل اپنے مخالفین کو میدان سے باہر کرنے کی کوشش میں ہے، اسی لیے وہ فلسطینیوں، لبنانیوں، عراقیوں اور ایرانی عوام کے خلاف برسر پیکار ہے۔ صہیونی حکومت سمجھتی ہے کہ مغرب کی پشت پناہی اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنے اہداف حاصل کرسکتی ہے، لیکن حماس رہنماؤں پر قاتلانہ حملے نے ثابت کردیا کہ اسرائیل ہر محاذ پر کامیاب نہیں ہے۔

لاسجردی نے کہا کہ ایران کے ساتھ جنگ مقابلے کے بعد بہت سے ملکوں نے یہ حقیقت تسلیم کی کہ صہیونی صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں۔ حالیہ واقعات نے عرب ممالک کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا ہے، جو ماضی میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور سیاسی و معاشی روابط بڑھانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اب کئی ممالک اس کی زیادتیوں کے مقابلے میں سخت موقف اختیار کررہے ہیں جس سے مزاحمتی محاذ کو تقویت ملے گی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل نے ترکی جیسے ملک کو بھی دھمکیاں دیں اور اس طرح کے اقدامات یقینا جوابی ردعمل کو جنم دیں گے۔ آج خطے کے ممالک کسی بھی فیصلے سے قبل اعلان کررہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے خلاف کھڑے ہوں گے اور یہ ایک سنجیدہ محاذ کی تشکیل ہے۔

مسلم ممالک میں بڑھتی یکجہتی سے اسرائیل بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا ہے۔ یہاں تک کہ صہیونی چینل 13 نے اپنی رپورٹ میں موجودہ صورتحال کو سیاسی سونامی قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ قطر پر ناکام حملے کے بعد اسرائیل کی تنہائی مزید بڑھ گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ وہ ممالک جو اسرائیل کو دوست سمجھتے تھے، مثلا سعودی عرب، مصر اور اردن، اب ایران کے قریب آ رہے ہیں اور اب انہیں یقین نہیں رہا کہ تل ابیب ان کا قابل اعتماد اتحادی ہوسکتا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فعال سفارت کاری اور خطے کے عوام میں بڑھتی بیداری نے وائٹ ہاؤس اور صہیونی حکومت کی کئی پالیسیوں کو ناکام بنادیا ہے۔ اگر یہ رجحان آگے بڑھا اور مسلم ممالک نے صرف نعروں پر نہیں بلکہ عملی میدان میں بھی یکجہتی دکھائی، تو خطے میں ایک مستحکم اور پائیدار سیکورٹی کا نظام وجود میں آسکتا ہے جس سے صہیونی خطرات خود بخود زائل ہوجائیں گے البتہ اس کے لیے عملی میدان میں ہماہنگی اور ہمدلی ضروری ہے۔

دوحہ میں اسلامی و عرب ممالک کے ہنگامی اجلاس کے دوران لبنانی صدر جوزف عون نے صہیونی تجاوزات پر حیران کن مؤقف اختیار کیا۔ قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت کے لیے بلائے گئے اجلاس میں عون نے عرب صلح منصوبے کی حمایت دہراتے ہوئے کہا کہ ہم عالمی برادری کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ عرب صلح منصوبے کے مطابق صلح کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے دعوی کیا کہ دوحہ پر حملے کا مقصد دراصل ثالثی اور مسائل کے حل کے لیے مکالمے کے اصول کو نشانہ بنانا تھا۔ عون کا کہنا تھا کہ صورتحال اب پوری طرح واضح ہوچکی ہے اور جواب بھی اسی وضاحت کے ساتھ دیا جانا چاہیے۔ عرب ممالک کو متحد ہوکر جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں شریک ہونا چاہیے۔

اپنے عجیب بیان میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمیں دنیا کو یہ بتانا چاہیے کہ ہم عرب صلح منصوبے کے مطابق صلح کے لیے تیار ہیں، جسے عالمی سطح پر وسیع حمایت حاصل ہے۔

News ID 1935372

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha