مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک- محمدرضا مرادی: اسرائیل نے مشرق وسطی میں کئی دہائیوں تک مختلف حکمت عملیوں کے ذریعے سکیورٹی خطرات کو قابو میں رکھنے اور اپنی برتری محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ ان حکمتِ عملیوں میں سے ایک یہ تھا کہ اسرائیل وقتاً فوقتاً محدود فوجی کارروائیاں کرے تاکہ اپنے دشمنوں، جیسے حماس اور حزب اللہ کو وقتی طور پر کمزور کرتا رہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بڑے تصادم سے بچا جائے اور حالات کو اسرائیل کی مرضی کے مطابق قابو میں رکھا جائے۔ یہ حکمتِ عملی 7 اکتوبر 2023 کے طوفان الاقصی آپریشن سے پہلے تک کسی حد تک کارگر تھی۔ مگر اس تاریخ کے بعد یہ ظاہر ہوا کہ اسرائیل کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے اور وہ مہار کی پالیسی سے نکل کر "مکمل فتح" اور خطے میں نئے نظام کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اسرائیل کی سابقہ حکمت عملی کے حوالے سے واشنگٹن پوسٹ کے آدام ٹیلر نے لکھا کہ فلسطینی گروہ اور ان کے ہتھیار ایسے ہیں جیسے گھاس جسے بار بار کاٹنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ 2018 میں اسرائیل کے سابق وزیراعظم نفتالی بنٹ نے بھی کہا تھا کہ جو گھاس نہ کاٹے، گھاس اسے نگل لے گی۔
یہ پالیسی زیادہ تر فضائی بمباری، مخصوص افراد کو قتل کرنے اور مختصر جھڑپوں پر مبنی تھی تاکہ بڑے پیمانے پر جنگ سے بچا جا سکے۔ 2008، 2012 اور 2014 کی غزہ جنگیں اس کی مثال ہیں۔ لیکن 7 اکتوبر 2023 کو جب حماس نے غیر معمولی حملہ کیا اور اسرائیل کو بھاری نقصان پہنچایا، تو یہ ماڈل ناکام ہوگیا۔
طوفان الاقصی کے بعد اسرائیل نے اس حکمت عملی کو چھوڑ دیا اور "مکمل فتح" کی حکمت عملی اختیار کرلی۔ اب مقصد صرف دشمن کو وقتی طور پر روکنا نہیں بلکہ مکمل طور پر ختم کرنا اور خطے کی طاقت کا توازن اپنے حق میں بدلنا ہے۔ اسی لیے اسرائیل نے غزہ میں حماس، لبنان میں حزب اللہ، یمن میں انصاراللہ، شام اور ایران پر بھی حملے کیے۔
نتن یاہو کے نزدیک اس نئی پالیسی کا مقصد خطے میں اسرائیل کے غلبے پر مبنی استحکام پیدا کرنا ہے۔ اسی لیے وہ گریٹر اسرائیل کے خواب کی بھی بات کرتا ہے۔
امریکی سفارتکار ٹام باراک نے کہا کہ 7 اکتوبر کے بعد اسرائیل سایکس-پیکو معاہدے کی سرحدوں کو بے معنی سمجھتا ہے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق ہم اپنی حفاظت کے لیے جہاں جانا ضروری ہوگا، وہاں جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل اب صرف دفاعی یا وقتی حملوں پر نہیں بلکہ مکمل غلبے اور خطے کی نئی جغرافیائی سیاست پر زور دے رہا ہے۔
اس نئی حکمتِ عملی کو نتن یاہو مکمل فتح کہتے ہیں۔ عملی طور پر اس حکمت عملی کے نتیجے میں خطے میں ہرج و مرج اور عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔ لبنان، یمن اور شام میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اس کی واضح مثال ہے۔ اسرائیلی حملوں میں اب تک غزہ میں 63 ہزار سے زیادہ افراد شہید ہوچکے ہیں اور لبنان میں بھی ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں، جن میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ بھی شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کا نیا ماڈل استحکام پیدا کرنے کے بجائے تخریب اور کشیدگی کو فروغ دے رہا ہے۔
اگرچہ اسرائیل نے کچھ فوجی کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن ان کے نتائج اس کے خلاف بھی گئے ہیں۔ عرب ممالک جو پہلے "معاہدہ ابراہیم" کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا چاہتے تھے، اب اسے ایک بڑا خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔ خاص طور پر سعودی عرب، جو اکتوبر 2023 سے پہلے اسرائیل کے قریب تھا، اب فلسطینی ریاست کے قیام کی شرط رکھ رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، غزہ اور ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد عرب ممالک خطے میں استحکام پر زور دے رہے ہیں اور تل ابیب سے دور ہوگئے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل کے حریف ایران، حزب اللہ، انصاراللہ اور حماس بھاری نقصانات کے باوجود اب بھی طاقتور ہیں۔ ان کی مزاحمت کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کی کوششیں اور اسرائیل کی عالمی مشروعیت میں کمی، نتن یاہو کے منصوبوں کے لیے بڑے چیلنجز پیدا کررہی ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہر اسٹیفن والٹ کے مطابق، اگرچہ اسرائیل نے دشمنوں کو وقتی طور پر کمزور کیا ہے، لیکن خطے کا نظام ابھی بھی پرانے تضادات اور فلسطین کے حل نہ ہونے پر قائم ہے۔ بشار اسد حکومت کے سقوط، محور مقاومت کو نقصان اور ایران پر حملے سے اسرائیل کی طاقت میں وقتی طور پر اضافہ ہوا ہیں، لیکن ایک پائیدار امن یا استحکام کے امکانات مزید کم ہوئے ہیں۔ مسئلہ فلسطین کا سیاسی حل نہ نکالا گیا تو نتن یاہو کا نیا نظام خواب ہی رہے گا۔
یوں اسرائیل کی حکمت عملی میں تبدیلی کا نتیجہ صرف انتشار، اسرائیل کی بڑھتی سفارتی تنہائی اور دشمنوں کی پائیداری کی صورت میں نکلا ہے۔ عرب ممالک اب اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کو خطرناک سمجھتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جب تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، خطے میں نیا نظام پرانے تضادات کے تکرار کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس صورت میں اسرائیل کو مستقبل میں مزید تنہائی اور عدم احساس تحفظ کے سوا کچھ نصیب نہیں ہوگا۔
آپ کا تبصرہ