مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لبنان کی کابینہ کا مقاومت کو غیرمسلح کرنے کے بارے میں اہم اجلاس اختلافات کے باعث ہنگامہ خیز انداز میں ختم ہوگیا۔ اجلاس میں صدر جوزف عون اور وزیراعظم نواف سلام شریک تھے۔
المیادین کے مطابق، اجلاس سے قبل صدر اور وزیراعظم کے درمیان ایک علیحدہ ملاقات بھی ہوئی تھی۔ اجلاس کے دوران جب لبنانی فوج کے کمانڈر روڈلف ہیکل نے اپنے منصوبے پر باضابطہ گفتگو شروع کی، تو حزب اللہ اور امل تحریک سے تعلق رکھنے والے چار شیعہ وزرا نے واک آؤٹ کرتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔ فادی مکی سمیت چند دیگر وزرا نے بھی اس اقدام میں ان کا ساتھ دیا۔
وزیر محنت محمد حیدر نے المنار سے گفتگو میں وضاحت کی کہ وزرا کا یہ اقدام امریکی منصوبے کے خلاف احتجاج تھا کیونکہ یہ منصوبہ قومی میثاق کے منافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ کا کوئی بھی فیصلہ اگر شیعہ نمائندوں کی شرکت کے بغیر کیا گیا تو وہ غیرقانونی ہوگا۔
اطلاعات کے مطابق وزرا نے صدارتی محل کے مرکزی ہال کو چھوڑ دیا اور واضح اعلان کیا کہ وہ دوبارہ اجلاس میں واپس نہیں آئیں گے۔ اس واقعے کے بعد لبنان میں مقاومت کو غیر مسلح کرنے کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔
شیعہ وزیر فادی مکی نے صدر جوزف عون سے ملاقات میں اپنا استعفی ہاتھ سے لکھ کر پیش کیا اور کہا کہ اگر حالات نے تقاضا کیا تو وہ سرکاری طور پر استعفی جمع کرا دیں گے۔
ادھر حزب اللہ کے سیاسی دفتر کے رکن غالب ابو زینب نے کہا کہ حکومت کی ضد لبنان کو انتہائی خطرناک سیاسی بحران کی طرف دھکیل رہی ہے۔ انہوں نے صدر اور وزیراعظم کو اس صورت حال کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا۔
ابو زینب نے مزید کہا کہ حزب اللہ کے پاس تمام آپشنز محفوظ ہیں۔ آئندہ اقدامات حالات اور اجلاس کے نتائج کی بنیاد پر طے کیے جائیں گے۔
آپ کا تبصرہ