مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ کی پٹی میں جاری صہیونی فوج کی وحشیانہ بمباری نے نہ صرف ایک انسانی المیہ کھڑا کر دیا ہے بلکہ نسل کشی کی ایسی تصویر پیش کی ہے جو انسانیت کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ بچے، خواتین اور عام شہری بلا امتیاز نشانہ بن رہے ہیں، اور امدادی سرگرمیوں کو بھی سخت رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ زخمی بے یار و مددگار پڑے ہیں، اور لاشیں بکھری ہوئی، ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکی ہیں۔ ایسے میں وہاں کام کرنے والے بین الاقوامی ڈاکٹر اور نرسیں، جو صدمے اور درد کے ناقابل بیان مناظر دیکھ کر لوٹے ہیں، سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا دنیا میں انسانیت کا کوئی وجود باقی ہے؟ یہ انسانی المیہ اور مدد کی ناکافی فراہمی، ایک سنگین بین الاقوامی بحران کی عکاسی کرتی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
یہ ڈاکٹر جو دنیا کے مختلف ممالک سے رضاکارانہ طور پر غزہ میں کام کررہے تھے، اسرائیلی فوج کی نسل کشی کے گواہ ہیں اور انسانی المیے کی تفصیل بتاتے ہیں۔
فرانسیسی اخبار "لوموند" کے مطابق نومبر 2023 سے 5 ڈاکٹر اور 2 نرسوں پر مشتمل طبی ٹیم غزہ میں کام کر رہی ہے اور انسانی المیے اور لوگوں کی ضروریات نہ پوری ہونے پر گلہ مند ہے۔
ٹیم میں شامل فرانسیسی ڈاکٹر مهدی الملّالی جو تین ہفتے غزہ میں تھے، کہتے ہیں کہ غزہ کے دوزخ کا حال بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ میرا دل وہاں رہ گیا ہے۔
فرنچ سرجن فرانسوا گوردل کہتے ہیں کہ غزہ جانا میرے لیے زندگی بدل دینے والا تجربہ تھا۔ بمباری جاری ہے، لوگ فرار نہیں ہوسکتے، پوری آبادی متاثر ہے۔
فرانسیسی جریدے کو انٹرویو دینے والی طبی ٹیم میں 5 ڈاکٹرز اور 2 نرسز تھے جنہوں نے کہا کہ زخمیوں اور ہلاک شدگان میں بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ طبی مراکز پر حملوں اور دھماکوں کی آوازیں اب بھی ہمارے کانوں میں گونجتی ہیں۔
ڈاکٹر فرانسوا گوردل کہتے ہیں کہ ہر منٹ میں 5-6 میزائل کی آواز آتی تھی، بمباری زلزلے جیسی شدت کی تھی، ہسپتال لرز رہا تھا، مریض ٹکڑے ٹکڑے ہورہے تھے۔
نرس کارن ہاسٹر کہتی ہیں کہ ایک دفعہ بمباری کے دوران ہسپتال میں بہت ہولناک صورتحال تھی۔ مریض زمین پر پڑے تھے، ان کے پیٹ پھٹے ہوئے تھے اور اعضا زمین پر بکھرے ہوئے تھے۔ جب وہ فوت ہوگئے تو ہمیں انہیں کنارے دھکیلنا پڑتا تھا کیونکہ نئے زخمی مسلسل آرہے تھے اور ہمارے پاس انہیں فوری سردخانے میں رکھنے کا وقت نہیں تھا۔
ٹیم میں شامل مهدی الملالی نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہم نے تقریبا 30 زخمیوں کو ہسپتال میں داخل کیا جو ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور بمباری کے وقت سو رہے تھے۔ ایک ماں بہت پریشان تھی اور اسے نہیں معلوم تھا کہ کیا کرے۔ جب اسے بتایا گیا کہ اس کا ایک بیٹا جان کی بازی ہار گیا ہے، تو اس نے اپنے اس بیٹے کی پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر باقی چار بچوں کی تلاش میں لگ گئی، لیکن وہ ان کو بھی نہ پاسکی۔
سوئس نرس سونام ڈرائر کورنوت کہتی ہیں کہ جب میں اپنے دو ماہ کے مشن کے اختتام پر وہاں سے رخصت ہوئی، تب وہاں آٹا مکمل ختم ہوچکا تھا اور لوگ بہت بھوکے تھے۔ غزہ کے بچوں کو بچپن کا مطلب نہیں معلوم۔ وہ ہمیشہ بھوکے اور بے چینی میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ بچے نہ چلتے ہیں، نہ بولتے ہیں اور حتی کہ رونا بھی نہیں جانتے۔
آئی سی یو اسپیشلسٹ اورلی گوڈار نے اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک مرد یاد آتا ہے جس کا پیر دیر البلح میں ایک دھماکے میں شدید زخمی ہوا تھا، اور اس نے کہا کہ مجھے جانا ہے تاکہ اپنے بچوں کو دفن کرسکوں۔ یہ بات سن کر میں بہت صدمے میں مبتلا ہوگئی اور گہرے خیالات میں چلی گئی۔
کیا یورپ میں انسانیت باقی ہے؟
44 سالہ فرانسیسی ڈاکٹر جس نے 2024 میں غزہ میں تین مشن کیے تھے، نے کہا کہ ہم نے ہر بار غزہ میں زیادہ تباہی دیکھی ہے، آج رفح نام کی کوئی جگہ باقی نہیں، خان یونس مکمل تباہ ہوچکا ہے، شمالی غزہ ایک صحرا بن چکا ہے اور لوگ سخت مشکلات اور ناامیدی میں سانس لے رہے ہیں۔
58 سالہ آرتھوپیڈک سرجن سمیر عدو جنہوں نے خان یونس میں ناصر ہسپتال میں اپنا پہلا مشن کیا، کہتے ہیں کہ جب میں نے دیکھا کہ زیادہ تر مقتولین اور زخمی عورتیں اور بچے ہیں تو مجھے بہت صدمہ ہوا۔ میں نے میڈیا کو غزہ میں دیکھی بھوک، ٹوٹے ہوئے اعضاء اور جنگ کے خوف کے بارے میں بتایا، مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ آئیں فرانس واپس آکر غزہ کے بارے میں بات کریں۔ کیا یورپ کے پاس اب بھی انسانیت باقی ہے؟
ڈاکٹر مهدی الملالی نے اپنی گفتگو میں مزید کہا کہ ہم اپنے فلسطینی ساتھیوں کی مدد سے غزہ کے جہنم سے زندہ بچ نکلے، لیکن غزہ کے لوگ اب بھی قید میں ہیں۔ مجھے وہ دردناک لمحات یاد ہیں جب غزہ کے ڈاکٹرز اپنے درد اور یادوں کے بارے میں بات کرتے تھے، اور ان کے صبر کی طاقت نے ہم سب کو حیران کردیا۔
آپ کا تبصرہ