مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: شام اور صہیونی حکومت کے درمیان تعلقات میں حالیہ مہینوں کے دوران شدید کشمکش دیکھی گئی ہے، جو ایک طرف سے اسرائیلی قبضے اور میزائل حملوں اور دوسری جانب معمول کے تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کے درمیان جھول رہے ہیں۔
اسرائیل کے بانیوں کا شروع سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ اسرائیل کی بقا مشرق وسطی میں دیگر ممالک کی تقسیم پر منحصر ہے، کیونکہ اس کی ساخت ہی خطے کی سیاسی، ثقافتی اور مذہبی ساخت سے غیر ہم آہنگ ہے۔ اسی لیے تل ابیب ہمیشہ اپنے ارد گرد کے ممالک کو کمزور کرنے اور تقسیم کرنے کی کوشش میں رہتا ہے حتی کہ وہ اپنے بعض ہمسایہ ممالک کے ساتھ صلح معاہدوں کو بھی وقتی جنگ بندی سمجھتا ہے، تاکہ بعد میں ان کے ساتھ بھی حساب برابر کر سکے جیسا کہ لبنان، مصر اور فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ کئی بار دیکھا گیا۔
صہیونی حکومت اپنے اہداف کے حصول کے لیے تین بڑے عوامل کا سہارا لیتی ہے:
1. عرب دنیا میں داخلی تفریق اور ٹکراؤ
2. خطے کی طاقتور ریاستوں کا زوال اور ان کا غیر مؤثر ہونا
3. مغرب کی غیر مشروط حمایت
گذشتہ دو دہائیوں میں بعض عرب ممالک میں خانہ جنگی اور اندرونی بحرانوں نے ان کی قومی سلامتی اور ریاستی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اسی تناظر میں شام میں حالیہ برسوں میں رونما ہونے والی سیاسی و عسکری تبدیلیوں نے ملک کو داخلی کمزوری کا شکار بنایا ہے۔ دسمبر میں حکومت کی تبدیلی کے بعد شام عملی طور پر مزاحمتی محور سے باہر ہوگیا۔
طاقت کے بل بوتے دمشق سے مذاکرات
بشار الاسد کے بعد سے صہیونی حکومت نے شام کو کوئی سنجیدہ خطرہ نہیں سمجھا۔ 14 سالہ جنگ کے باعث شامی فوج شدید فرسودگی کا شکار ہوچکی ہے، اور اس کے اہم بنیادی ڈھانچے تباہ ہوچکے ہیں۔ متعدد افسران کو یا تو برطرف کردیا گیا یا وہ خود الگ ہوچکے ہیں۔
یہ صورتحال اسرائیل کو طاقت کے بل بوتے پر بات چیت کرنے اور شام کو بغیر کسی رعایت کے قابو میں رکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ موجودہ حالات میں دمشق نہ صرف اسرائیل کا حریف نہیں رہا بلکہ تل ابیب کے لیے خطے میں اپنی موجودگی اور برتری کو تقویت دینے کا ایک موقع بن گیا ہے۔
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد وجود میں آنے والی جولانی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کا آغاز کردیا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق جولانی نے آذربائیجان کا دورہ کیا جو اس سلسلے میں ایک اہم واسطہ قرار دیا جارہا ہے۔
آذربائجان کو رابطہ پل بنانے کی کوشش
ذرائع کے مطابق، آذربائیجان جو اسرائیل کے ساتھ توانائی اور دفاع کے شعبوں میں قریبی شراکت دار ہے، نہ صرف شام کو گیس فراہم کرنے پر آمادہ ہے بلکہ اسرائیل کو بھی 60 فیصد ایندھن فراہم کرتا ہے۔ جولانی کی حکومت نے بعض اقتصادی مراعات اور مغربی پابندیوں میں نرمی کے بدلے جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرنے کی مشروط آمادگی ظاہر کی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیروں اسٹیو وٹکاف اور تھامس باراک نے دونوں فریقوں کے درمیان بالواسطہ بات چیت کی تصدیق کی ہے۔
تعلقات کے راستے میں رکاوٹیں
ماہرین کے مطابق، تل ابیب-دمشق تعلقات بہتر کرنے میں کئی بنیادی رکاوٹوں کا سامنا ہے:
1. حکومت جولانی کی داخلی کمزوری
جولانی کی حکومت عوامی حمایت اور سیاسی جواز سے محروم ہے اور داخلی طور پر سلفی گروہوں کے اتحاد سے بنی ہے، جس سے عوامی مزاحمت کا خطرہ لاحق ہے۔
2. مرکزی حکومت کا فقدان
موجودہ شامی ریاست ایک مکمل مرکزی حکومت کی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ مختلف گروہوں اور مراکزِ طاقت میں منقسم ہے، جو کسی بھی قسم کے حساس معاہدے کے نفاذ کو مشکل بنا دیتا ہے۔
3. عوامی ردعمل کا خوف
اگرچہ عرب حکومتوں میں فلسطینی مسئلہ کے تئیں سنجیدگی کم ہوئی ہے، لیکن عوام کی نظر میں اسرائیل اب بھی دشمن ہے اور اس سے تعلقات معمول پر لانا خیانت کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
اسرائیل کی حکمت عملی ہمیشہ خطے کی تقسیم اور کمزور ممالک پر مرکوز رہی ہے۔ عرب معاشروں میں داخلی خلفشار، علاقائی طاقتوں کا زوال اور مغربی حمایت کی وجہ سے اسرائیلی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں معاونت مل رہی ہے۔ جولانی کی حکومت کو اسرائیل کسی حقیقی خطرے کے طور پر نہیں دیکھتا، بلکہ وہ شام کے ذریعے اپنے دشمنوں کو پیغامات بھیجتا ہے اور اس کو اپنے مفادات کی بنیاد پر استعمال کرتا ہے۔
آپ کا تبصرہ