مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ میں جاری صیہونی مظالم کے دوران ایک نہایت خطرناک اور خفیہ منصوبہ منظر عام پر آیا ہے جس میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کی کابینہ پر الزام ہے کہ وہ غزہ میں ایک مسلح دہشت گرد گروہ کو مالی و عسکری مدد فراہم کر رہی ہے۔ یہ گروہ نہ صرف فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف سرگرم ہے بلکہ اس کے داعش سے تعلقات بھی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق، صیہونی حکومت کے سابق وزیر آویگدور لیبرمین نے نتن یاہو کی حکومت پر سنگین الزام لگایا ہے کہ وہ غزہ میں ایک شدت پسند گروہ کو مسلح کر رہی ہے، جو داعش سے وابستہ ہے۔
اسی طرح اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائیر لاپید نے بھی اس منصوبے کو غیرذمہ دارانہ اور خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ نتن یاہو پسِ پردہ ایسے گروہوں کو اسلحہ دے رہے ہیں جن کے تعلقات داعش سے ہیں۔ یہ اقدامات آخرکار خود اسرائیل کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔
لاپید نے خبردار کیا کہ وہ ہتھیار جو آج غزہ میں دہشت گروہ کو فراہم کیے جا رہے ہیں، کل کو اسرائیلی عوام اور فوج کے خلاف استعمال ہوں گے۔
فلسطینی خبررساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے مشرق وسطی اور فوجی امور کے ماہر رامی ابوزبیدہ نے نتن یاہو حکومت کے اس خفیہ منصوبے کے درج ذیل اسٹریٹجک مقاصد بیان کیے جن میں لبنان میں صیہونی حمایت یافتہ ملیشیا کی طرح غزہ میں ایک پراکسی گروہ تشکیل دینا، مزاحمتی صفوں فکری تقسیم پیدا کرنا، غزہ کے علاقوں کو صیہونی ایجنسیوں کے کنٹرول میں لانا اور جنگ کے باعث پیدا شدہ فقر، فساد اور سماجی بدحالی کو استعمال کر کے غزہ کو اندر سے توڑنا شامل ہے۔
ابو شباب گینگ: نتنیاہو کا ہتھیار
صیہونی حمایت یافتہ گروہ کی سربراہی ایک متنازع و مشہور مجرم یاسر ابو شباب کے ہاتھ میں ہے۔ غزہ انفارمیشن سینٹر کی رپورٹ کے مطابق 1993 میں پیدا ہونے والے یاسر ابو شباب کا تعلق جنوبی غزہ کے علاقے رفح سے ہے۔
ابویاسر ماضی میں مختلف جرائم میں ملوث ہونے کے باعث قید میں بھی رہا مگر صیہونی بمباری کے دوران جیل سے فرار ہو کر انہوں نے ایک مسلح گروہ تشکیل دیا۔ اس گروہ کو فلسطینی مزاحمتی قوتیں "یاسر ابو شباب گینگ" کہتی ہیں، جو اب "عوامی فورسز" کے نام سے متعارف ہو رہا ہے۔
گروہ کی سرگرمیاں اور خفیہ اہداف
یہ گروہ خود کو بظاہر دہشت گردی کے خلاف فعالیت کرنے والا گروہ ظاہر کرتا ہے، لیکن پس پردہ مقاومتی تنظیموں کی جاسوسی، رفح میں انسانی امداد کی چوری اور تقسیم کاری مراکز پر قبضہ اور صیہونی افواج کے ساتھ ميدان جنگ میں تعاون جیسے کاموں میں ملوث ہے۔ اس گروہ کے کارندوں کی تعداد 100 تا 300 افراد تک بتائی جاتی ہے اور یہ کرم ابو سالم کراسنگ اور مغربی رفح کے علاقوں میں سرگرم ہے۔
القسام بریگیڈز کا انکشاف
30 مئی 2025 کو عزالدین قسام بریگیڈ نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں مشرقی رفح میں صیہونی اسپیشل یونٹ کے ساتھ ایک جھڑپ دکھائی گئی۔ ویڈیو میں کچھ فلسطینی عناصر کو بھی دشمن کے ساتھ دیکھا گیا، جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ابو شباب گینگ سے وابستہ تھے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اقوام متحدہ کی داخلی دستاویزات کے حوالے سے لکھا کہ یاسر ابو شباب انسانی امداد کی چوری میں ملوث ہے۔ یاسر ابو شباب نے جنوبی غزہ میں اپنی قبائلی وابستگی کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ترابین قبیلے کے سرداروں نے 30 مئی 2025 کو اعلان کیا کہ ترابین قبیلہ دشمن کی خدمت کرنے والے کسی شخص کی حمایت نہیں کرے گا۔
اسی طرح ابویاسر کے اہل خانہ نے بھی ایک بیان میں اعلان کیا کہ جب اس کی غداری ثابت ہوئی اور اس نے صیہونی افواج سے تعاون کیا تو ہمارا اس سے تعلق ختم ہوگیا۔ جب تک توبہ نہ کرے اس کا خون مباح ہے۔
آپ کا تبصرہ