مہر خبررساں ایجنسی،بین الاقوامی ڈیسک؛ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف گذشتہ نو مہینوں سے اسرائیلی جارحیت جاری ہے۔ گذشتہ دنوں انکشاف ہوا ہے کہ بھارت بھی غزہ میں فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم میں اسرائیل کی مدد کررہا ہے۔ اس انکشاف نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرلی ہے۔ صہیونی اخبار یدیعوت احارونوت نے سب سے پہلے اس کا انکشاف کیا۔
صہیونی اخبار کے مطابق غزہ میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کا بڑا حصہ بھارت فراہم کررہا ہے۔ غزہ کی جنگ کے آغاز سے ہی بھارت نے ہتھیاروں کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ جون کے مہینے میں اسپین نے ایک بھارتی کشتی کو اپنے سمندر میں لنگرانداز ہونے کی اجازت دینے سے انکار کیا تھا جو 27 ٹن دھماکہ خیز مواد لے کر اسرائیل جارہی تھی۔
یدیعوت احارونوت نے مزید کہا ہے کہ اسرائیل نے حیدرآباد میں بھارتی فوج کے لئے ہتھیار بنانے والی ایک فیکٹری تعمیر کی ہے۔ اس فیکٹری میں ڈرون طیارہ تباہ کرنے والے ہتھیاروں کی تیاری جاری ہے۔
بھارت کیوں اور کیسے اسرائیل کے جنگی جرائم میں شریک ہوگیا؟
بھارت تاریخی طور پر فلسطین کے مسئلے میں اسرائیل کا حامی رہا ہے۔ سیاسی اور اقتصادی حمایت سے بڑھ کر اب دفاعی شعبے میں بھی بھارت اسرائیل کا حامی بن گیا ہے۔ 1947 میں بھارت نے فلسطین کی تقسیم کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹ دیا اور پہلا غیر عرب ملک بن گیا جس نے فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کو فلسطینیوں کی قانونی اور نمائندہ تنظیم تسلیم کرلی۔ بھارت ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے 1988 میں فلسطین کو تسلیم کیا۔ اگرچہ بھارت نے 1950 میں اسرائیل کو تسلیم کیا تھا تاہم 1992 تک دونوں کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں تھے۔
ماضی کی روایات کے برعکس طوفان الاقصی میں بھارت نے اسرائیل کی سیاسی حمایت شروع کی۔ نریندر مودی اور بھارتی وزیرخارجہ ان عالمی رہنماوں میں سے تھے جنہوں نے طوفان الاقصی کے بعد ابتدائی لمحات میں ہی فلسطینیوں کے اس حملے کی مذمت کی۔ غزہ میں صہیونی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے خالف اسٹینڈ لینے کے بجائے نریندر مودی نے کئی مرتبہ اسرائیلی وزیراعظم کو اپنا دوست قرار دیا ہے۔
بھارت کی جانب سے اسرائیل کی حمایت اس حد تک بڑھی کہ 27 اکتوبر کو بھارت نے اقوام متحدہ میں غزہ میں جنگ بندی کے حق میں ووٹ دینے سے بھی گریز کیا۔ مودی حکومت کے اس اقدام کی بھارت میں مذمت کی گئی۔ بھارتی مبصر ابھیجت میترا نے ایکس پر ایک بیان میں لکھا کہ اسرائیل کی کھل کر حمایت کرکے بھارت نے صہیونی حکومت کو مکمل چھوٹ دی ہے۔
بھارتی اردو اخبارات نے لکھا ہے کہ صہیونی حکومت کی حمایت مشرق وسطی کے بارے میں بھارتی پالیسی میں اہم تبدیلی ہے۔ مودی نے اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں بھارت کی غیرجانبدارانہ پالیسی کو ترک کیا ہے۔ اسرائیل کے حوالے سے جانبدارانہ موقف اختیار کرنے سے بھارت میں سیاسی شگاف پیدا ہوا ہے۔ مودی کی قیادت میں برسراقتدار جماعت اسرائیل کی حامی ہے جب کہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس فلسطین کی حمایت کا اعادہ کرتی ہے۔
صہیونی حکومت کے بارے میں نئی دہلی کے موقف میں تبدیلی
سوویت یونین کی شکست کے بعد بھارت کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آنے لگی اور بھارت تدریجا امریکہ کی جانب سے جھکنے لگا۔ 1992 میں نرسما راؤ کی حکومت کے دوران نئی دہلی نے صہیونی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے اور تل ابیب میں اپنا سفارت خانہ قائم کیا اس کے جواب میں نئی دہلی میں اسرائیلی سفیر بھی تعیینات ہوا۔
حالیہ دہائیوں میں دونوں کے درمیان دفاعی تعلقات بھی بڑھ گئے ہیں۔ مودی کی حکومت قائم ہونے کے بعد بھارت نے 662 ملین ڈالر کا ہتھیار اسرائیل سے خریدا ہے۔ امریکہ میں لابی بھی اس حوالے سے فعال ہے اور امریکہ کو اس پر اعتماد میں لینے کی کوشش کررہی ہے۔ دہلی اور تل ابیب کے درمیان سالانہ تجارت کی شرح پانچ ارب ڈالر ہے۔ اس کے برعکس فلسطین میں بھارت کے لئے دفاعی اور اقتصادی منافع نہیں ہیں لہذا اقتصادی اور دفاعی مفادات کی خاطر دہلی حکام غزہ میں صہیونی حکومت کے جنگی جرائم پر چشم پوشی کئے ہوئے ہیں اور صہیونی حکومت کی دفاعی ضروریات بھی پوری کررہے ہیں۔
فلسطینیوں کی زمینوں پر یہودیوں کی آبادکاری کے لئے رہائشی کالونیاں تعمیر کی جارہی ہیں۔ بھارت سے ہزاروں مزدور ان مکانات کی تعمیرات میں حصہ لے رہے ہیں۔ بھارتیوں کو ملازمت مل رہی ہیں۔ اگرچہ غزہ جنگ کی وجہ سے ہزاروں بھارتیوں کو علاقہ چھوڑنا پڑا ہے۔
صہیونی اخبار ہارٹز نے کہا ہے کہ مودی اور نتن یاہو کے درمیان مستحکم تعلقات کی وجہ سے لاکھوں بھارتی اسرائیل کا ویزا حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ شواہد بتارہے ہیں کہ بھارتی شہری مقبوضہ علاقوں میں تعمیراتی کاموں کے علاوہ فلسطینیوں پر حملوں میں اسرائیل کی مدد کررہے ہیں۔ صہیونی فورسز کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی میں بھارتی فوجیوں کا بھی ہاتھ ہے اور فلسطینیوں پر اسرائیلی فورسز کے مظالم پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
دفاعی اور اقتصادی فوائد کے ساتھ مزدوروں کے لئے ملازمت کے مواقع کی وجہ سے دہلی حکام فلسطینیوں پر صہیونی حکومت کے مظالم سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔
آپ کا تبصرہ