مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک: حضرت مسلم کوفہ تحریک کربلا کے ابتدائی شہیدوں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ حضرت علی علیہ السلام کے بھائی عقیل کے بیٹے تھے۔ حضرت مسلم کی شجاعت اور بہادری زبان زد عام تھی۔ حضرت مسلم نے آخری دم تک نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کا ساتھ دیا اور ان کی راہ میں اپنی جان قربان کردی۔
جب حضرت امام حسین ؑ نے یزید کے خلاف قیام کا ارادہ کیا تو حضرت مسلم بن عقیل مدینے سے ہی آپ کے ہمراہ تھے۔ حضرت امام حسین کی مکہ آمد کے بارے میں کوفیوں کو خبر ملی تو بڑی تعداد میں خطوط لکھے۔ امام حسین علیہ السلام کوفہ کے لوگوں کی متلون مزاجی اور مفاد پرستی کو بخوبی جانتے تھے لہذا کسی مخلص اورتجربہ کار شخص کی ضرورت تھی کہ جولحظہ بہ لحظہ رنگ بدلنے والے افراد سے شکست نہ کھا سکے اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے آخری دم تک میدان میں ڈٹے رہے۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے مختصر قافلہ پر نظر ڈالی اور مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ منتخب فرماکر کوفہ روانہ کردیا۔
امام حسین علیه السلام کوفیوں کے نام لکھے گے ایک خط میں لکھتے هیں "قد بعثت الیکم اخی و ابن عمّی و ثقتی من اھل بیتی" یعنی میں ایک ایسے شخص کو تم لوگوں کی طرف بھیج رها هوں جو میرا بھائی، میرے چاچا کا بیٹا اور همارے اهل بیت میں قابل اعتماد فرد هے۔
معصوم کے اس کلام میں حضرت مسلم کے بارے میں چند قابل فخر فضیلتیں بیان کی گی ہیں۔ حضرت امام حسین علیه السلام نے انهیں اپنا بھائی کہا جبکه وه نسب کے لحاظ سے ان کے بھائی نهیں تھے۔ در حقیقت حضرت مسلم اس قدر وفادار تھے که ان کے لئے امام حسین علیه السلام کے بھائی هونے کا لقب شائسته تھا۔
امام عالی مقام نے حضرت مسلم کو ایک قابل اعتماد شخص قرار دیا۔ اگر امام حسین علیه السلام حضرت مسلم کی فضیلت میں صرف یہی ایک جمله بیان فرماتے تو کافی تھا۔
جناب مسلم مکہ سے مدینہ تشریف لائے اور روضہ رسول میں نماز اداکرکے صبح ہوتے ہی کوفہ کی سمت سفر کا آغاز کردیا۔ تاریخی شواہد کے مطابق قیس بن مسہر صیداوی اور دیگر افراد بھی کوفہ کے اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے۔ امام حسین ؑ نے مسلم بن عقیل کو مخفیانہ سفر کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ آسانی کے ساتھ لوگوں سے رابطہ کرسکیں اور لوگ ان کے ساتھ دینے پر راضی ہوں تو امام کو فوری خبر دیں۔
سفر کی مشکلات
حضرت مسلم نے کوفہ جانے کے لئے عادی راستے کا انتخاب نہیں کیا اس سے پتہ چلتا ھے کہ انہوں نے امام کے حکم کے تحت اپنے سفر کو مخفی رکھا۔ آپ نے راستہ دکھانے کے لئے دو افراد کی خدمت حاصل کی لیکن راستہ گم ہوجانے کی وجہ سے شدید پیاس کا شکار ہو گئے اور وہ دونوں شدت پیاس سے ہلاک ہوگئے۔ حضرت مسلم اپنی جان بچا کر ایک آبادی میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ آپ نے وہاں سے حضرت امام حسین ؑ کو خط کے ذریعے پیش آنے والے حالات سے با خبر کیا اور اس واقعے کو بدشگونی سے تعبیر کرتے ہوئے امام سے اس سفر کی رخصت طلب کی لیکن امام نے انہیں اپنا سفر جاری رکھنے کا حکم دیا۔
مسلم اور کوفہ
حضرت مسلم جب کوفہ پہنچے تو وہاں مختار بن ابی عبیدہ کے نام سے گھر میں ساکن ہوئے۔ ان کے گھر میں ہی آپ نے شیعوں سے ملاقات کی اور حضرت امام حسین کا خط انہیں پڑھ کر سنایا۔
مورخین کے مطابق کوفہ میں حضرت مسلم کی بیعت کرنے والوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ تاریخ میں 12 ہزار سے لے کر 30 ہزار افراد کی طرف سے بیعت کا ذکر ملتا ہے۔ کوفہ میں حضرت مسلم کو ملنے والی پذیرائی کو دیکھ یزید کے جاسوسوں نے یزید کو کوفہ کے حالات کے بارے میں خط لکھا اور حاکم کوفہ نعمان بن بشیر کو فوری طور پر برخاست کرکے بصرہ سے عبیداللہ ابن زیاد کو روانہ کرنے کی اپیل کی۔
ابن زیاد کی آمد کے بعد کوفہ میں حالات بدل گئے اور حضرت مسلم کی نگرانی شدید ہوگئی۔ آپ نے اپنا ٹھکانہ تبدیل کیا اور حضرت ہانی بن عروہ کے گھر میں سکونت اختیار کی۔ ابن زیاد کے جاسوسوں نے حضرت مسلم کے ٹھکانے کے بارے میں خبر دی تو ابن زیاد نے ہانی بن عروہ کو دارالامارہ میں طلب کیا۔
ہانی کو طلب کرنے کی خبر سن کر قبیلہ مذحج کے لوگوں نے ابن زیاد کے قصر کا گھیراو کرلیا اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ابن زیاد نے قاضی شریح کے ذریعے لوگوں کو جھوٹی تسلی دے کر منتشر کیا اور ہانی بن عروہ کو شہید کردیا۔
ابن زیاد کی طرف سے شہر میں اعلان کروایا گیا کہ حضرت مسلم کوفہ کے حالات خراب کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا ساتھ دینے والوں کو دھمکی دی گئی۔ حکومت کا اعلان سن کر لوگ حضرت مسلم کے پاس سے منتشر ہونے لگے۔
حضرت مسلم پر ایسا وقت آیا کہ رات بسر کرنے کے لئے گھر نہ ملا۔ آپ نے مغربین کی نماز پڑھ ایک مومنہ خاتون طوعہ کے گھر پناہ لی لیکن اس کے بیٹے نے حضرت مسلم کی موجودگی کے بارے میں ابن زیاد کو خبر دی۔
ابن زیاد نے محمد بن اشعث کے ہمراہ 70 افراد پر مشتمل لشکر بھیجا اور حضرت مسلم کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ حضرت مسلم نے تن تنہا دشمن کا مقابلہ کیا اور کئی سپاہی واصل جہنم کئے۔
آخر میں حضرت مسلم کو گرفتار کرکے دارالامارہ میں ابن زیاد کے دربار لے جایا گیا۔
دربار میں کسی نے کہا کہ اے مسلم! تم نے امیر کو کیوں سلام نہیں کیا؟ حضرت مسلم نے جواب دیا کہ میرا امیر صرف حسین ابن علی ہیں۔
ابن زیاد نے حکم دیا کہ حضرت مسلم کو دارالامارہ کی چھت پر لے جاکر سر تن سے جدا کیا جائے۔ اس طرح تحریک کربلا کے عظیم سپاہی حضرت مسلم بن عقیل نے نواسہ رسول کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے راہ خدا میں اپنی جان قربان کردی۔
آپ کا تبصرہ