مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، لبنانی مقاومتی تنظیم حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے تنظیم کے کمانڈر شہید سید مصطفی بدرالدین کی برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سید ذوالفقار کے نام سے معروف مصطفی بدرالدین نے سینے پر کئی میڈل سجائے تھے جن میں سے مجاہد، جانباز، اسیر اور کمانڈر جیسے تمغے قابل ذکر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج مقاومت کی جانب سے ہونے والا ہر حملہ ان شہید مجاہد کمانڈروں کی یاد تازہ کرتا ہے۔ شہید مصطفی بدرالدین نے شہید قاسم سلیمانی، شہید زاہدی اور شہید حجازی کے ہمراہ میدان جنگ میں نمایاں کارنامے انجام دیے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امریکہ شام میں اپنی پسند کی حکومت لانا چاہتا تھا۔ شہید بدرالدین اور دیگر شہداء نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر مقاومت کو دوام بخشا۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین کو فراموشی کے سپرد ہونے سے بچاکر عالمی سطح پر دوبارہ زندہ کیا۔ عرب حکمران صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرکے فلسطین کو تاریخ کے اوراق میں دفن کرنا چاہتے تھے۔ بعض عرب ذرائع ابلاغ شب و روز یہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ اسرائیل خطے کی واحد جمہوری حکومت ہے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ طوفان الاقصی کے بعد مسئلہ فلسطین عالمی برادری اور حکومتوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ اکثر ممالک غزہ میں جنگ بندی کے حامی ہیں۔ 7 اکتوبر کے نتائج میں سے ایک امریکہ اور یورپ میں طلباء کے مظاہرے ہیں جس سے نتن یاہو اور جوبائیڈن غصے کی آگ میں جل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کی قرار داد منظور ہونے کی وجہ سے صہیونی نمائندے کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ انہوں نے امن کے حامی ممالک کی توہین کی ہے۔ صہیونی نمائندے نے سرگردانی کے عالم میں اقوام متحدہ میں یحیی السنوار کی تصویر اٹھالی۔
سربراہ حزب اللہ نے کہا کہ صہیونی فلسطین کو اپنے لئے خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ طوفان الاقصی نے دنیا کے ممالک پر واضح کردیا کہ فلسطین کا قیام ہی مسئلے کا واحد حل ہے۔ طوفان الاقصی اور فلسطینی عوام کی استقامت نے دنیا کے سامنے صہیونی حکومت کا اصلی چہرہ واضح کردیا۔ 8 مہینے گزرنے کے باوجود اسرائیل کی فتح کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ جب نتن یاہو کی جانب سے فتح نزدیک ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے تو صہیونی ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے دنیا کو فریب دینے کے لئے اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے کا سلسلہ روک دیا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تیکنیکی اختلاف موجود ہے۔ جب مصر اور قطر کی پیشکش سے حماس نے امریکہ اور اسرائیل کی توقع کے برعکس اتفاق کیا تو امریکہ اور اسرائیل کو سخت جھٹکا لگا۔ صہیونی حکومت کے سامنے دو ہی راستے ہیں: جنگ بندی پر راضی ہوجائے جو کہ شکست قبول کرنے کے مترادف ہے یا جنگ جاری رکھے جو ان کے لئے تباہ کن ثابت ہوگی۔
آپ کا تبصرہ