26 مارچ، 2024، 12:57 AM

رمضان المبارک کے پندرہویں دن کی دعا اور مختصر شرح

رمضان المبارک کے پندرہویں دن کی دعا اور مختصر شرح

اس دن کی دعا میں خاشعین کی طرح بندگی کرنے اور دلدادہ لوگوں کی طرح وسعت قلبی طلب کی جاتی ہے۔

اے معبود! آج کے دن مجھے خاشعین کی سی اطاعت نصیب فرما اور اس میں دلدادہ لوگوں ایسی بازگشت کیلئے میرا سینہ کھول دے اپنی پناہ کے ساتھ اے خوف زدہ لوگوں کی پناہ

اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ فِیْہِ طَاعَۃَ الْخَاشِعِیْنَ وَاشْرَحْ فِیْہِ صَدْرِیْ بِاِنَابَۃِ الْمُخْبِتِیْنَ بِٲَمَانِكَ یَا ٲَمَانَ الْخَائِفِیْنَ 

ماہ رمضان کی پندرہ تاریخ کو حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ولادت باسعادت کا دن ہے۔ آج کے دن کی دعا میں اللہ تعالی سے خاشعین کی طرح بندگی کی توفیق اور اس کے دلدادہ لوگوں کی طرح وسعت قلبی طلب کی جاتی ہے۔

خاشعین کی اطاعت

اللہ تعالی قرآن میں انبیاء کے بارے میں فرماتا ہے کہ  وَکَانُوا لَنَا خَاشِعِینَ وہ ہماری درگاہ میں خاشع تھے۔ خشوع ایک اندرونی کیفیت کا نام ہے جس کا مقام دل ہے اسی لئے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُم یعنی ان کا دل خاشع ہوجائے۔

خشوع قلب سے مراد ان کا نرم ہونا ہے۔ اس کے مقابلے میں قساوت اور سنگدلی ہے جس کی وجہ سے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔

بڑی شخصیت اور اعلی ذات کے سامنے خشوع فطری امر ہے پس خدا سے بڑھ کر کون زیادہ بزرگ ہے؟

تواضع اور خشوع کا اثر جسم سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ خاشعین دل اور جسم دونوں سے اللہ کے حضور تواضع کرتے ہیں۔

دو گروہ ایسے ہیں جن کا تواضع فقط جسمانی ہوتا ہے:

1۔ اللہ تعالی کی معرفت سے بے بہرہ لوگوں کا خشوع صرف ظاہری حد تک ہوتا ہے۔

2۔ منافق بھی صرف ظاہری حرکات کی حد تک خشوع کرتا ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: تَعَوَّذُوا بِاللّهِ مِنْ خُشُوعِ النِّفَاقِ: خُشُوعِ البَدَنِ وَ نِفَاقِ القَلبِ اللہ کی پناہ مانگو اس بات سے کہ جسم کی حد تک خشوع رہے جبکہ دل میں منافقت ہو۔

امیر المومنین علیہ السلام شیعوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَخُشُوعاً فی عِبادَةٍ یعنی وہ اپنی عبادتوں میں خشوع کرتے ہیں اور ان کے ظاہر کی طرح باطن بھی خشوع سے بھرپور ہوتا ہے۔

خاشعین کی علامات

خاشعین کی چار علامتیں ہیں:

1۔ اللہ کے نزدیک آشکار ہونے سے مراقبت اور احتیاط کرنا
2۔ ہمیشہ اچھے کام کرنا
3۔ اللہ سے راز و نیاز
4۔ قیامت کی فکر میں ہونا

وَاشْرَحْ فِیهِ صَدْرِی بِإِنابَةِ الْمُخْبِتِینَ اور اس میں دلدادہ لوگوں ایسی بازگشت کیلئے میرا سینہ کھول دے

شرح صدر کا مطلب یہ ہے کہ سینے کو حق سننے اور قبول کرنے کے لئے وسیع کرے۔ انسان کی حالت یہ ہوجائے کہ جب حق بات کو سنے تو اس کو رد کرنے کے بجائے قبول کرے۔ اسی وجہ سے اسلام میں وسعت قلبی عبادت ہے۔ شرح صدر ایمان کی وہ حالت ہے جو اللہ پر توکل اور لوگوں سے بے نیازی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا دل دریا کی طرح سخی ہوتا ہے۔  شرح صدر اللہ کی عنایت ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شرح صدر کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا: یہ ایسا نور ہے جو اللہ جس کے دل میں چاہے روشن کرتا ہے اور اس کی روشنی میں اس شخص کی روح مزید روشن اور وسیع ہوتی ہے۔ سوال کیا گیا: اس کی علامت کیا ہے؟ فرمایا: آخرت کی طرف توجہ، دنیا سے بے رغبتی اور موت آنے سے پہلے مرنے کے لئے تیار ہونا اس کی علامت ہے۔

انابہ کا مطلب گناہ کو چھوڑ کر اللہ کی طرف پلٹنا ہے۔

اخبات کا مطلب مومنوں کا اللہ کے حضور خضوع کرنا اور اللہ کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرنا اور اس کے وعدوں کے بارے میں مطمئن ہونا ہے۔
پس اس حصے میں دعا کی جاتی ہے کہ خدایا! ان لوگوں کی طرح مجھے بھی  حق قبول کرنے کی وسعت قلبی عطا فرما جو گناہ کو ترک کرکے تیری طرف لوٹ آتے ہیں اور تیرے وعدوں پر اطمینان رکھتے ہیں۔

بِأَمانِکَ یَا أَمانَ الْخائِفِینَ

آج کے دن کی دعا اللہ کی امان کی طلب ہے وہی ذات ہے جو خوفزدہ لوگوں کے لئے ملجا اور ماوی ہے۔

News ID 1922836

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha